• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے کی حالت میں تین دفعہ طلاق دینے کا حکم

استفتاء

شوہر کابیان:

’’میں *** ولد *** نے مؤرخہ 23-2-10 کو نشے کی حالت میں اپنی منکوحہ سے جھگڑا کیا پیسے کے معاملے میں بحث تھی تو میں اس دوران اس کو یہ الفاظ کہے کہ ’’میں نے آپ کو نہیں رکھنا، میں نے آپ کو طلاق دے دینی ہے‘‘ اس کے آگے مجھے کچھ یاد نہیں۔‘‘

بیوی کا بیان:

*** زوجہ *** سے بذریعہ فون یہ بیان لیا گیا کہ:

’’میرا شوہر نشے کی حالت میں تھا گھرآیا تو  لڑائی جھگڑا ہوا، اسی دوران  میرے شوہر*** نے یہ الفاظ کہے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ پھر کئی دفعہ اس لفظ طلاق طلاق کی تکرار کی۔ مکمل نشے میں تھا، زبان بھی صاف نہیں تھی، تُتلا رہی تھی، سب کو گالیاں دے رہا تھا، طلاق بولنے کے بعد گھر سے جانے لگا تو نشے کی وجہ سے سیڑھیوں میں گرگیا، پھر باہر جا کر دوبارہ گر گیا۔ پھر کچھ دیر بعد دوبارہ گھر آیا اور اوپر جاکر سو گیا۔  اس وقت وہاں ہم میاں بیوی کے علاوہ چچی بھی موجود تھی۔‘‘

چچی سے فون پر بات ہوئی تو اس بھی یہ بیان دیا کہ:

’’*** گھر آیا تو نشے میں ڈوبا ہوا تھا، ہر کسی سے بد کلامی کررہا تھا، گالیاں نکال رہا تھا، بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہوا تو بولا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ پھر کئی دفعہ طلاق طلاق طلاق کہتا رہا۔ میں اس کو چپ کروانے کے لیے آگے ہونے لگی تھی لیکن اتنی دیر میں اس نے کہہ دیا تھا۔‘‘

شرعی مسئلہ سے آگاہ فرمائیں کہ آیا طلاق وقوع پذیر ہوئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی نے  شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سنے ہیں اس لیے  راجح قول کے مطابق بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے نکاح ختم ہوچکا ہے لہذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔البتہ مذکورہ صورت میں  چونکہ نشے کی وجہ سے شوہر کے افعال میں خلل تھا جیسا کہ شوہر کے سیڑھیوں میں نشے کی وجہ سے گرنے سے معلوم ہورہا ہے، اس لیے بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی اور خاص مجبوری کے حالات میں ان بعض حضرات کے قول پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے۔

ردالمحتار (6/669) میں ہے:

والمرأة كالقاضى إذا سمعته أو أخبرها عدل لايحل لها تمكينه

در مختار (4/427) میں ہے: 

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع ليدخل السكران (أو سكران) ولو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجرا به يفتى تصحيح القدوري.

در مختار مع رد المحتار (1/144) میں ہے: 

(وجنون وسكر) بأن يدخل ‌في ‌مشيه تمايل ولو بأكل الحشيشة

(قوله: وسكر) هو حالة تعرض للإنسان من امتلاء دماغه من الأبخرة المتصاعدة من الخمر ونحوه، فيتعطل معه العقل المميز بين الأمور الحسنة والقبيحة إسماعيل عن البرجندي (قوله: يدخل) أي به. قال في النهر: واختلف في حده هنا وفي الأيمان والحدود؛ فقال الإمام: إنه سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض ولا الطول من العرض وخوطب زجرا له. وقالا: بل يغلب عليه فيهذي في أكثر كلامه. ولا شك أنه إذا وصل إلى هذه الحالة فقد دخل في مشيته اختلال

رد المحتار (4/432) میں ہے:

(قوله أو سكران) السكر: سرور يزيل العقل فلا يعرف به السماء من الأرض. وقال: بل يغلب على العقل فيهذي في كلامه، ورجحوا قولهما في الطهارة والأيمان والحدود….

قلت: لكن صرح المحقق ابن الهمام في التحرير أن تعريف السكر بما مر عن الإمام إنما هو السكر الموجب للحد، لأنه لو ميز بين الأرض والسماء كان في سكره نقصان وهو شبهة العدم فيندرئ به الحد وأما تعريفه عنده في غير وجوب الحد من الأحكام فالمعتبر فيه عنده اختلاط الكلام والهذيان كقولهما….. وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم.

فتح القدیر (3/ 482) میں ہے: 

و في مسئلة الطلاق خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سيرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن *** و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و *** بن سلمة من مشائخنا. 

رد المحتار (1/175) میں ہے: 

قال العلامة الشرنبلالي في رسالته [العقد الفريد في جواز التقليد] : مقتضى مذهب الشافعي كما قاله السبكي منع العمل بالقول المرجوح في القضاء والإفتاء دون العمل لنفسه ومذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتى لنفسه لكون المرجوح صار منسوخا اهـ فليحفظ، وقيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنى النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه، نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عاميا فلم أره، لكن مقتضى تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك. قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنى النصوص والأخبار وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه اهـ. 

قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة، فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة، ثم قال: وفي المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا. اهـ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved