• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نشے کی حالت میں تین طلاقوں کا حکم

استفتاء

ایک عورت کی شادی ہوئی، پھر ایک بچی کی پیدائش ہوئی تو خاوند نے نشے کی حالت میں تین (۳) طلاقیں دے دیں اور یہ کام اس نے شراب کے نشے میں کئی مرتبہ کیا، اس کے باوجود یہ عورت خاوند کے ساتھ رہتی رہی، اب کسی نے اس کو سمجھایا کہ نشہ میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا تم اس سے الگ ہوجاؤ۔

مذکورہ صورت میں عورت کے لیے کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی آپ رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: بیوی کا بیان بھی مہیا کریں اور اس کا رابطہ نمبر بھی ارسال کریں۔

بیوی کا بیان: ہماری شادی کو آٹھ سال ہوگئے ہیں، جب سے بچی کی پیدائش ہوئی ہے اس وقت سے طلاقوں کا سلسلہ شروع ہے، بچی کی عمر تقریبا تین سال ہے۔ شوہر نے نشہ کیا ہوتا تھا لیکن بالکل مدہوش نہیں ہوتے تھے بلکہ گھر کے دوسرے کام ٹھیک کررہے ہوتے تھے اور تین طلاقیں بھی دے دیتے تھے، اب میں ان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر شوہر نشے کے باوجود ہوش وحواس میں تھا اور طلاق دیتے وقت اس کے اقوال وافعال میں کوئی خلل نہ تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا نہیں تو مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہےلہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔ اور اگر شوہر نشے کی وجہ سے ہوش وحواس میں نہ تھا یا نشے کی وجہ سے اس کے اقوال وافعال میں خلل آگیا تھا تو ایسی صورت میں بھی راجح قول کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، البتہ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی اور خاص مجبوری کے حالات میں ان بعض حضرات کے قول پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے۔

رد المحتار (4/432) میں ہے:

ان المراد ان يکون غالب کلامه هذيان فلو نصفه مستقيما فليس بسکر فيکون حکمه حکم الصحاة في اقراره بالحدود وغيرذلک

در مختار (4/427) میں ہے:

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع ليدخل السكران (أو سكران) ولو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجرا به يفتى تصحيح القدوري.

فتح القدیر (3/ 482) میں ہے:

و في مسئلة الطلاق خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سيرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد بن سلمة من مشائخنا.

رد المحتار (1/175) میں ہے:

قال العلامة الشرنبلالي في رسالته [العقد الفريد في جواز التقليد] : مقتضى مذهب الشافعي كما قاله السبكي منع العمل بالقول المرجوح في القضاء والإفتاء دون العمل لنفسه ومذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتى لنفسه لكون المرجوح صار منسوخا اهـ فليحفظ، وقيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنى النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه، نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عاميا فلم أره، لكن مقتضى تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك. قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنى النصوص والأخبار وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه اهـ.

قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة، فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة، ثم قال: وفي المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا. اهـ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved