• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ناشزہ بیوی کا نفقہ

استفتاء

میری شادی ایک ایسے پاکستانی گھرانے میں ہوئی  جو عرب ملک بحرین میں مقیم ہیں۔ دونوں گھرانوں نے دین کو بنیاد بنایا اور نکاح، رخصتی سادگی سے ہوئی۔ نہ ہم نے جہیز مانگا نہ انہوں نے دیا اس کے علاوہ بھی کوئی غیر شرعی رسم وغیرہ نہیں ہوئی۔ نکاح سے پہلے میری کمزور مالی حیثیت کے بارے میں میرے سسر اور میری اہلیہ کو پتہ تھا جس کو انہوں نے قبول کیا۔ رخصتی کے فوراً بعد میرے پاس کوئی ایسا کمرہ میسر نہ تھا کہ جس میں میری اہلیہ کے علاوہ گھر کے بھی فرد کا خصوصاً میری والدہ کا تصرف نہ ہوتا۔ اس لیے نئے کمرہ کی تعمیر تک اسے میں نے والدہ کے کمرہ میں ٹھہرایا جبکہ والدہ دوسری جگہ منتقل  تو ہوئیں لیکن ان کا سامان اس کمرہ میں رہا۔ دو ماہ اسی طرح  گذر گئے، میں اوپر نیا کمرہ بنانے کے لیے قرض کی کوشش میں رہا لیکن نہ بنا سکا البتہ اس دوران اہلیہ نے کمرے کے موضوع پر مجھے بہت پریشان کیا، پھر اسے کچھ کاغذات کے سلسلہ میں بحرین جانا پڑا۔  وہاں جاکر اس نے مجھے وہاں بلایا جب میں وہاں گیا تو مجھے وہاں  رہنے پر اصرار کیا، وہاں کے حالات ایسے نہ تھے، لہذا میں نے انکار کیا جس پر اس نے مجھ سے طلاق مانگی، میں نے طلاق نہ دی اور واپس پاکستان آگیا۔ پھر اہلیہ نے پاکستان بلانے پر اصرار شروع کیا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس تمہارے لیے ابھی مناسب کمرہ نہیں جب  نیا کمرہ بن جائے گا تو تم  کو  بلا لوں گا۔ لیکن ا س کے اصرار پر میں نے  کہا اگر تم اس بات پر تیار ہو کہ جہاں رکھوں گا ،جس کے ساتھ رکھوں گا، جتنا خرچہ کروں گا، گلی میں سلاؤں  یا گھر میں، توپھر میں ابھی بلانے کے لیے تیار  ہوں، اس نے حامی بھر لی اور میرے کہنے پر تحریر بھی دی۔ لیکن جب پاکستان  آگئی تو پہلے ہی دن سے وہی تقاضا بلکہ اب گھر سے باہر ہمارے ہمسایوں اور رشتہ داروں حتے کہ گھر میں کام کے لیے آنے والوں سے بھی گلہ شروع کر دیا، کہ مجھے کمرہ نہیں ملا، جب میں نے اپنی والدہ والا کمرہ خالی کر کے دینے کا کہا تو اس نے کہا مجھے یہ پسند نہیں یہ روشن اور ہوا دار نہیں وغیرہ۔ میں نے منت کی کہ یہ عارضی ترتیب ہے ، میں کوشش کر رہا ہوں، کمرہ بن جائے گا۔ تم نے تو کہا تھا کہ گلی میں بھی سلاؤ گے تو تمہارے ساتھ رہوں گی۔ اب ایسا کیوں کرتی ہو؟ جواب ملا کہ یہ کمرہ بھی گلی ہی ہے کہ یہاں بھی گلی کی طرح لوگ آجاتے ہیں۔ یعنی گھر والے ، پھر کہنے لگی اگر گھر کا مہمان خانہ میں عارضی ترتیب بناتے ہو تو میں تیار ہوں  اس کو پتہ تھا کہ اس کے لیے میرے والد صاحب نہیں مانتے اور وہ اس کے لیے تیار بھی نہ ہوئے۔ آخر  مجھے پیسے مل گئے اور میں نے والد صاحب والے گھر کے سامنے علیحدہ گھر کی ترتیب بنائی۔ اہلیہ میرے ساتھ پیسے لینے گئی، میرے ساتھ مل کر نقشہ بنایا، بھٹہ پر اینٹوں کا پتا کر لیا۔ مستری سے بات ہو گئی، لیکن جب میں نے نقشہ میں ایک کمرہ اپنی والدہ کے لیے کہا تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئی اور اکیلے ہی رہنے کا تقاضا کیا۔ کہا کہ والدہ پرانے گھر میں ہی رہے میرے ساتھ نہ رہے گی، میں نے بہت منت کی کہ میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں تم یہ شرط نہ لگاؤ، میری والدہ کو جہاں سہولت ہوگی وہ وہاں رہ لے گی، لیکن وہ اس پر مصر رہی ۔پھر اپنے والد صاحب کو بلایا اور میری اور میرے گھر والوں کی شکایت ان سے کی، انہوں نے مجھے سے اجازت مانگی کہ یہ کچھ دن میرے ساتھ یہاں پاکستان میں ہی ان کے گھر چلی جائے۔ میں نے اجازت دی، لیکن میری اہلیہ میرے پاس آئی  اور کہا کہ میں کچھ عرصہ کے لیے نہیں جاؤں گی بلکہ اس گھر سے جارہی ہوں اور دوبارہ کبھی نہیں آؤں گی، میں نے بہت کہا کہ ایسا نہ کہو لیکن اس نے کئی بار کہا کہ ایسا کہوں گی اور ایسا ہی کروں گی۔ میں نے صراحتا کہا کہ میں تمہیں اس طرح جانے کی اجازت نہیں دیتا اس نے کہا میں پھر بھی جاؤں گی، اس کے والد صاحب نے بھی ایسا کہنے سے منع کیا پھر بھی اس نے کہا میں ایسا ہی کہوں گی اور کروں گی۔ اور وہ چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد بھی میں اسے منانے جاتا رہا ا ور جو مناسب سمجھا پیسوں اور ضروریات زندگی کی شکل میں خرچ کرتا رہا۔

اس صورت مذکورہ کے مطابق کیا اس کے جانے کے بعد :

۱۔ کیا  میری بیوی ناشزہ ہے؟  ۲۔ کیا میرے ذمہ اس کا نفقہ و سکنی واجب  رہتا ہے؟  ۳۔ جبکہ مجھے جو میسر تھا اس پر قناعت کرنے کی تحریر بھی دی اور اقرار بھی کیا۔ جبکہ والدہ والا کمرہ خالی کر کے لینے کو بھی قبول نہ کیا۔ اور جب مجھے مال میسر ہوا اور علیحدہ گھر بنانے کی ترتیب بن گئی پھر بھی میرے صراحتاً منع کرنے کے باوجود وہ میکے چلی گئی۔

وضاحت: بیوی اب میکے میں ہے اورا پنے حساب سے مانگ رہی ہے۔

سائل نے فون پر وضاحت کی کہ بیوی کے خاندان میں بہوؤں کو علیحدہ گھر لیکر دینے کا رواج نہیں ہے بلکہ صرف علیحدہ کمرہ دیا جاتا ہے خود اس کی ماں کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

صورت مسئولہ میں شوہر چونکہ بیوی کو علیحدہ کمرہ دینے پر راضی ہے مگر بیوی اس کے باوجود بغیر اس کی اجازت کے اپنے والدین کے گھر مقیم ہے تو خرچہ کی حقدار نہیں ہو گی۔

و كذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله و أهلها و في الدر بعده بقدر حالهما. قال الشامي تحته: لكن إذا كان أحدهما غنياً و الآخر فقيراً فقد مر أنه يجب لها في الطعام و الكسوة  الوسط و يخاطب بقدر  وسعه والباقي دين عليه إلى الميسرة فانظر هل يتأتى ذلك هنا .

فقال الرافعي تحته:

قد يقال يتأتى ذلك هنا أيضاً بأن يفرض لها أجرة مسكن بالدراهم بقدر حالهما و يخاطب بقدر وسعه. فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved