• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح نامہ میں والد کے نام کے بجائے کسی اور کا نام لکھنا

استفتاء

ایک بھائی نے اپنے بڑے بھائی کو اس کی بے اولادی کی وجہ سے اپنا ایک سال کا لڑکا گود دیا، تو اس بڑے بھائی ہی نے اس کی پرورش کی اور اس کے سارے اخراجات پورے کیے، اور اس بڑے بھائی نے اپنے بھائی کے بیٹے کی ولدیت پر اپنا نام لکھوایا ہے۔ مثلاً پہلے ولدیت تھی *** اور پھر *** ہوتی۔ اور شناختی کارڈ پر بھی ولدیت یہ ہی تھی۔

پھر اس گود دیے ہوئے لڑکے کی شادی 19 برس کی عمر میں ہوئی تو اس کے نکاح میں کبھی اس کی ولدیت ***ہی لکھی گئی۔ اور اس لڑکے کے نکاح کے دوران یہ لڑکا خود موجود تھا اور لڑکی جس سے اس کا نکاح ہوا دوسرے کمرے میں تھی۔ اس لڑکے نے بذات خود اجاب و قبول کیا، تو آپ اس مسئلہ کا حل بتائیں بمع مہر کے ساتھ کے یہ نکاح ہو گیا کہ نہیں؟

اس کے خاندان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ولدیت کے تبدیل ہونے کی وجہ سے نکاح درست نہیں۔

الفاظ یہ تھے: کہ میں نے آپ کے نکاح میں فلاں بنت فلاں کو اتنے حق مہر کے عوض دی آپ نے قبول کی؟ اس نے کہا میں نے قبول کی۔ (اس طرح کل تین مرتبہ کہا)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اصل حکم تو یہ ہے کہ نکاح نامے اور دیگر جگہوں میں اصل باپ کا نام لکھوانا چاہیے، کسی اور کا نام لکھوانا گناہ کی بات ہے۔ لیکن نکاح کے اندر اگر لڑکا خود موجود ہو، ایجاب و قبول اسی سے ہوا ہو تو نکاح صحیح ہو جاتا ہے اگرچہ غلط ولدیت ذکر ہو۔ لہذا مذکورہ نکاح درست ہے۔

(إلا إذا كانت حاضرة): راجع إلی المسئلتين أي فإنهما لو كانت مشاراً إليها و غلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوی من التسمية لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح. (رد المحتار: 4/ 401)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved