• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نوٹس کے ذریعے طلاق دینے کا حکم

استفتاء

جناب اعلیٰ مؤدبانہ گذارش ہے کہ میں م****کا رہائشی ہوں اور چھ بچوں کاباپ  ہوں جن میں  تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں،میری سب سے بڑی بیٹی*** جس نے درس نظامی کا کورس کیا ہوا ہے اور چوبیس سال کی ہے جس کی شادی 2017 میں تھی اور اب تین بچوں کی ماں ہے، ***کا اپنے شوہرکے ساتھ اکثر گھریلو جھگڑا رہتا تھا۔ اب اس کے شوہ***نے یونین کونسل سے ***کو طلاق کے تین نوٹس بھیج دئیے ہیں میں اپنی بیٹی کو اپنے شوہر کے گھر آباد رکھنا چاہتا ہوں۔

آپ میری اصلاح فرمائیں کہ اسلامی نظریے کے مطابق میری بیٹی اپنے شوہر کے گھر دوبارہ آباد ہوسکتی ہے یانہیں؟

نوٹ: پہلے طلاقنامے کی تاریخ کے بعد تین ماہواریاں پوری نہیں ہوئیں تھی کہ تیسرا نوٹس آگیا تھا۔

پہلے طلاقنامے کی عبارت:

"………………….. ایک چھت تلے حدود اللہ کے تحت زندگی بسرکرنا ناممکن ہوگیا ہے جس کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے کی فضاء پیدا ہوگئی ہے اس لیے من مقر نے مسماۃ مذکوریہ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے نیز  یہ کہ مسماۃ مذکوریہ من مقر سے بار بار طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور من مقر کو خودکشی کی دھمکی دیتی ہے۔ ان حالات کی بناء پر من مقر مسماۃ مذکوریہ کی خواہش پر ***کو طلاق اول دیتا ہوں۔ لہٰذا  تحریر ہذا  لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

دوسرے طلاقنامے کی عبارت:

"………………….. فریقین کا آپس میں بطور میاں بیوی شرعی حدود کے اندر رہ کر  ایک چھت تلے حدود اللہ کے تحت زندگی بسرکرنا ناممکن ہوگیا ہے جس کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے کی فضاء پیدا ہوگئی ہے اس لیے من مقر نے مسماۃ مذکوریہ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے نیز  یہ کہ مسماۃ مذکوریہ من مقر سے بار بار طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور من مقر کو خودکشی کی دھمکی دیتی ہے۔ ان حالات کی بناء پر من مقر مسماۃ مذکوریہ کی خواہش پر***کو طلاق دوئم دیتا ہوں۔ لہٰذا  تحریر ہذا  لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

تیسرے طلاقنامے کی عبارت:

"………………….. فریقین کا آپس میں بطور میاں بیوی شرعی حدود کے اندر رہ کر  ایک چھت تلے حدود اللہ کے تحت زندگی بسرکرنا ناممکن ہوگیا ہے جس کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے کی فضاء پیدا ہوگئی ہے اس لیے من مقر نے مسماۃ مذکوریہ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے نیز  یہ کہ مسماۃ مذکوریہ من مقر سے بار بار طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور من مقر کو خودکشی کی دھمکی دیتی ہے۔ ان حالات کی بناء پر من مقر مسماۃ مذکوریہ کی خواہش پ***کو طلاق سوئم دیتا ہوں۔ یہ کہ اب من مقر کا مسماۃ مذکوریہ کے ساتھ کسی قسم کاکوئی تعلق واسطہ نہ رہاہے یہ کہ مسماۃ مذکوریہ جہاں چاہے عقد ثانی کرے من مقر کو کوئی اعتراض نہ ہے۔ لہٰذا  تحریر ہذا  لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

شوہر سے  فون کے ذریعے دارالافتاء سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایاکہ میں نے اپنےہوش وحواس میں یہ فیصلہ کیا تھا،کسی کاجبر نہ تھا اور  تینوں طلاقناموں پر میں نے دستخط کیے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے نوٹس کے ذریعہ تین دفعہ طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور  نکاح مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور بیوی شوہر پرحرام ہوچکی  ہے لہٰذا اب نہ رجوع   ہوسکتا ہے اورنہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:طلاق جس طرح زبان کے کہنے سے واقع ہوجاتی ہے اسی طرح طلاق تحریر سے بھی واقع ہوجاتی ہے لہٰذا جب شوہر نے تینوں طلاقناموں پردستخط کیے تو چونکہ تینوں طلاقناموں کی تاریخ عدت کے اندر مکمل ہوگئی تھی اس لیےاس سے طلاقناموں پرمذکورہ تاریخوں میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

حاشیہ ابن عابدین(4/442) میں ہے:

الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة ………. وإن ‌كانت ‌مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو

حاشیہ ابن عابدین(4/442) میں ہے:

ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه ………… وكذا كل  كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لايقع الطلاق مالم يقر انه كتابه

الدرالمختار(5/43) میں ہے:

(لا) ينكح (مطلقة) ‌من ‌نكاح ‌صحيح نافذ كما سنحققه (بها) أي بالثلاث (لو حرة وثنتين لو أمة) ولو قبل الدخول ………..حتى يطأها غيره

فتاویٰ عالمگیری(1/472) میں ہے:

إذا كان الطلاق بائنا ‌دون ‌الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved