• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ناول اور فرق باطلہ کی کتب کی پروف ریڈنگ کا حکم

استفتاء

بندہ کی عمر 60 سال کے لگ بھگ ہے، جماعت میں چار ماہ بھی لگے ہوئے ہیں۔ بندہ پہلے ایک دینی ادارے میں سکول کی تدریس اور دفتری امور (حساب وکتاب وغیرہ) سر انجام دیتا رہا ہے۔ بیماری کی وجہ سے ارباب اہتمام نے مدرسے سے  فارغ کر دیا ہے، بندہ کی چونکہ اردو تعلیم بہتر ہے اس لیے بندہ نے گھر پر رہ کر حروف خوانی (پروف ریڈنگ)  کا کام شروع کیا ہے، اردو بازار کے ایک ناشر سے رابطہ ہے۔ ان کے ہاں سے جو تحریری کام آتا ہے اس کی تصحیح میرے ذمے ہے۔ اس میں دیگر کام بھی ہے جیسے کسی صوفی شاعر کی شاعری کی تشریح وغیرہ۔ لیکن زیادہ تر کام ناولز اور سیریز کی تصحیح کا ہوتا ہے۔ یہ ایسی کہانیاں ہوتی ہیں جو ڈائجسٹوں میں چھپتی ہیں یا مستقل طور پر ہفتہ وار رسالوں میں چھپتی ہیں، ناولز ہر قسم کے ہوتے ہیں، جاسوسی بھی اور رومانی بھی۔ تصحیح کے دوران مجھے اس بات کی ناشر کی طرف سے  یہ اجازت ہوتی ہے کہ کوئی بات نا مناسب لگے تو میں اسے حذف کر دوں اور میں اس پر عمل بھی کرتا ہوں اور اگر کوئی ناول زیادہ نامناسب لگے تو میں اس کی  اشاعت بھی رکوا دیتا ہوں۔  اس کے علاوہ میرے پاس اس بیماری اور عمر کے ان حالات میں کوئی اور کام نہیں ہے۔ میرے لیے اس کام کے کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

کبھی کبھی فرق باطلہ کی کوئی کتاب بھی تصحیح کے لیے آجاتی ہے، اس کی تصحیح کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے لیے ناولز یا فرق باطلہ کی کتب کی پروف ریڈنگ کی شرعاً گنجائش ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

امداد الفتاویٰ (4/ 151) میں ہے:

سوال: ’’ایک کاتب کاپی لکھنے والا جس کا پختہ عقیدہ اہل سنت و الجماعۃ کا ہے اور انہی حضرات کا معتقد ہے دریافت کرتا ہے کہ سید احمد خاں کی تفسیر کی کاپی لکھنے میں مجھ سے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا؟ ایسی حالت میں جبکہ روزی اسی کام پر ہے اور یہ یقین ہو کہ سید احمد خاں کے عقائد اہل سنت و الجماعت کے خلاف تھے اور ان کے نیچری مضامین کا اثر ان شاء اللہ مجھ پر نہیں ہو سکتا۔ اور یہ بھی ظاہر کرنا ضروری ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ کاروبار کی کمی ہے مجبوراً ایسی لکھائی لکھی جاتی ہے اور موجودہ وقت میں فی صدی ایک کاپی نویس غیر قوم کا ہو گا، ورنہ کل مسلمان ہیں اور تمام کتابیں دوسری قوموں کی مسلمان ہی لکھتے ہیں۔

الجواب: في الدر المختار باب الحظر و الإباحة: و جاز تعمير كنيسة الخ (1/ 320)  اس قیاس پر یہ کتابت بروئے فتویٰ جائز ہے، گو تقویٰ کے خلاف ہے  مگر مجبوری میں گنجائش ہے‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved