• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رہاکردن کہنے سے طلاق کاحکم،موسوس کی طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتیان حضرات کے پاس سوال یہ ہے کہ فارسی میں لفظ’’ رھا کردن‘‘ کہنے سے بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے؟ جب سے دیگر کتب فقہ پڑھنے سے اس لفظ کے بارے میں مجھے اطلاع ہوئی ہے اس وقت سے مجھےوسوسہ پیدا ہوگیا کہ یہ لفظ میری طرف سے ادا ہوگیا حالانکہ میرا تعلق بنگالی لغت سے ہے اور میں اردو بھی جانتا ہوں،فارسی لغت کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور میں فارسی لغت بھی نہیں جانتا ہوں یہاں تک کہ وسوسہ اتنا بڑھ گیا کہ کھانے پینےمیں اور ہر وقت وسوسہ آتا ہے کہ تونے  الفاظ میں صرف "رھا ” بولاہے ۔ وسوسہ کی شدت کی وجہ سے کبھی زبان ہل جاتی ہے ۔ جتنا چاھتا ہوں کہ یہ لفظ دماغ سے ہٹانے کیلئے اتناہی دماغ میں آتا ہے ۔ اللہ رب العزت کو بہت بار وعدہ دیا کہ ائے اللہ اس لفظ کے بارے میں کبھی نہیں سوچیں گے ۔ اس وعدہ کے بعد بھی سوچنابند نہیں ہوتا ۔جب ایک حدیث میں پڑھا کہ اللہ کے رسول ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ قرب قیامت کے زمانے میں لوگ بیوی کے ساتھ زنا کریں گے ۔ اس حدیث کے تشریح پڑھنے کے بعد وسوسہ اور زیادہ ہوگیا کہ بیوی کے ساتھ میرے معاملات زناکے درجے کے ہوں گے یا کیا میں فی الحال زنا میں مبتلا ہوں ۔ دل میں حدیث کے اندر ذکر کردہ وعید اور جہنم کے عذاب کا ڈر آگیا ہے اسکے بعد میں نے سوچنا شروع کردیا کہ حلال حرام کا مسئلہ ہے مجھےاس بارے میں غور کرنا ضروری ہے کہ میری طرف سے لفظ ادا ہوا ہے یا نہیں لیکن مجھے یقین سے معلوم نہیں ہوتا کہ کب مجھ سے یہ لفظ ادا ہواہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہوا اس کو ذیل میں ذکر کردیتا ہوں :

یہ لفظ میرے دل میں آیا اور میری زبان بھی ہل جاتی ہے کوئی آواز ہوئی  یا نہیں؟ اس بارے ميں کنفرم نہیں ۔ میں نے سنا یا نہیں؟ اس بارے بھی کنفرم نہیں۔ ذہن کو زور دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان ہل جاتی ہے اور وسوسہ کی وجہ سے بیوی کاتصور سا بن جاتاہے ،میں نے اپنے اختیار سے یہ لفظ نہیں بولا اور نہ اختیار سےبیوی کاقصد کیا،جہاں تک یاد ہے کہ بیوی کے خیالات آجاتے ہیں بتائیے کہ یہ لفظ تو فارسی کاہے ہماری  لغت کے مطابق اس لفظ سے بیوی کو طلاق نہیں ہوتی، اس لفظ کے دوسرے معنی ہیں تو اگر کوئی اپنی بیوی کو یہ لفظ بول دے اور اسکی نیت طلاق کی نہیں ہے تو اس بارے میں آپ حضرات کیا کہیں گے۔ نیزایسے غیروں کی لغت کے بارے شریعت کے کیاضابطہ ہے۔

2۔ اور ایک بات ظاھر کرنا تھا  کہ وسوسہ کااتنا زور ہے کہ جب بیوی سے بات کرتا ہوں یا اسکو دیکھتا ہوں یہاں تک کہ بیوی سے مباشرت کے وقت لفظ مذکور ذہن میں آجاتا ہے اور زبان خفیف سی ہل جاتی ہے اور مجھے محسوس ہوتا کہ یہ لفظ مذکور منہ سے نکل گیا اچانک ذہن میں یہ لفظ آجاتاہے  لیکن بعد میں وسوسہ کی وجہ سے بولنے یا نہ بولنے میں سے کوئی پہلو یقین کے ساتھ کنفرم نہیں ہوتا  ، اس میں غالب گمان کا درجہ بھی حاصل نہیں ۔

آپ مفتیان شرع بتائیں کہ  کیا ازدواجی تعلق قائم کرنے سے آخرت میں میرامؤاخذہ ہوگا؟ مجھے کیا کرنا چاہئے کیا اس بارے استخارہ کرکے بیوی کے بارے کوئی فیصلہ کرنا چاہئے ؟ کیا خوف خدا کی وجہ سے بیوی کو اختیار کے ساتھ طلاق دیکر حلالہ شرعی کرنا چاہئے ؟ ایسے موقع پر شرعیت مطہرہ کی کیارائے ہے ۔ بہت شکریہ مفتیان کرام ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

موسوس (وسوسے کے مریض )کی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

درمختار:4/224

لایجوز طلاق الموسوس قال یعنی المغلوب فی عقله وعن الحاکم هو المصاب فی عقله اذا تکلم بغیر نظام کذا فی المغرب

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved