• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رخصتی سے پہلےخلوت ہونے بعد تین طلاقیں

استفتاء

میرا نکاح آج سے تقریبا ایک سال پہلے ہوا تھا ۔منگی میں جو نکاح ہوتا ہے وہ والا نکاح ہوا تھا۔ مطلب ابھی رخصتی نہیں ہوئی پرسوں فون پر میری منگیتر سے کسی بات پر لڑائی ہوئی تو میں نے تین بار اسے طلاق کا بولا۔ برائے مہربانی آپ رہنمائی فرمائیں کہ اب کیا کرنا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: الفاظ کیا بولے تھے ؟

جو اب وضاحت :میں آپ کو طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں ۔

وضاحت مطلوب ہے: آپ کی رخصتی تونہیں ہوئی لیکن کیا  آپ کی اپنی منگیتر سے کوئی ملاقات ہوئی ہے ؟اگر ہوئی ہے تو مکمل تفصیل لکھیں۔

جواب وضاحت:جی ہاں  ملاقات ہوئی ہے اکیلے میں کمرے میں کوئی نہیں تھا پر میں نے دخول  نہیں کیا جو اپنی بیوی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ ڈر لگ رہا تھا کہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے ۔صرف بوسہ لیا تھا اور مجھے یہ بھی نہیں تھا  پتہ  کہ یہ کون سا نکاح  تھا ہمارا مطلب طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

نکاح کس طریقے سے ہوا تھا تفصیل سے بتا ئیں ؟

جواب وضاحت :لڑکی کا بھائی تھا اور رشتہ دار تھے اور مولوی صاحب بھی تھے میں نے تین بار قبول بولا تھا تین بار قبول بولنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سب رشتہ داروں اور لڑکی کے بھائی کی موجودگی میں مولوی صاحب نے مجھ سے تین بار ایجاب کیا کہ میں فلاں لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں آپ نے قبول کی؟اور میں نے تین بار اس کے جواب میں کہا کہ میں نے قبول کیا۔

وضاحت مطلوب ہے: کمرے کا دروازہ لاک تھا یا صرف ویسے بند کیا ہوا تھا؟

جواب وضاحت :جی کمرے کا دروازہ لاک تھا اور صرف یہی ڈر تھا کہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی اور کیوں کی پہلی دفعہ اس طرح کا نکاح ہوا ہے یعنی منگنی کے موقع پر اس لئے دل بھی پوری طرح دخول پر مطمئن نہیں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کی اپنی منکوحہ کے ساتھ خلوت صحیحہ  ہو چکی ہے اس لیے آپ کی منکوحہ کو تین طلاقیں ہو چکی ہیں لہذا اب نہ  صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع ہوسکتا ہے۔

والحاصل انه اذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقه واحدة فلا شبهة في وقوعها فاذا طلقها في العدة طلقة  اخرى فمقتضى كونها مطلقه قبل الدخول ان لا تقع عليه الثانية لكن لما اختلفت الاحكام في الخلوة انها تارة تكون كالوطئ و تارة لا تكون جعلناها كالوطئ في هذا فقلنا بوقوع الثانيه احتياطا لوجودها في العدة .الرد المحتار ج 4 ص 248

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved