• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رخصتی سے پہلے طلاق کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ محمد اویس نے  پہلی شادی اپنی ماموں زاد سے کی ہے اور دوسری شادی اپنی خالہ زاد سے کی ہے،  دوسری شادی کورٹ میرج تھی،  کورٹ میں نکاح خواں نے باقاعدہ ایجاب و قبول کروایا تھا، نکاح کی مجلس  میں ہم میاں بیوی کے علاوہ  نکاح خواں اور وکیل موجود تھا، نکاح سے پہلے میں نے اپنی خالہ زاد کو اس کے والدین کے  گھر سے لیا تھا، نکاح کے بعد اس کو اس کے گھر چھوڑ دیا، اس نکاح کا کسی کو علم نہیں تھا، اس کے بعد میں کام کے سلسلے میں بیرون ملک چلا گیا، جب میرے والدین کو اس نکاح کا علم ہوا  تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور میرے لیے حالات کافی مشکل ہو گئے، مجھے ایک ثالث نے مشورہ دیا کہ دوسری بیوی کو طلاق کا نوٹس بھیج دو تو معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا، لیکن ثالث نے مجھ سے ایک کے بجائے تین پیپرز پر دستخط  کروا لیے،  میں ان پڑھ آدمی ہوں مجھے اس معاملے کی سمجھ نہیں آئی ، مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ ان کے اندر کیا لکھا ہوا ہے، میں نے ایک مہینے کے اندر صلح نامہ بھی جمع کروا دیا تھا، لیکن ثالث نے تینوں نوٹس یونین کونسل میں جمع کروا دیے تھے اور وہ نوٹس ہم دونوں میاں بیوی کے گھر بھی آ گئے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میری دوسری بیوی کو طلاق ہو گئی ہے؟ اگر ہو گئی ہے تو صلح ہو سکتی ہے؟ کیونکہ اب اس نکاح پر میری پہلی بیوی بھی راضی ہے اور دوسری بیوی کے والدین بھی راضی ہیں۔

پہلے طلاقنامے کی عبارت:

’’فریق اول: محمد اویس ولد منظور احمد ذات رحمانی ساکن کچی آبادی محلہ شہباز روڈ، تحصیل وضلع قصور۔ فریق دوم: اقصیٰ بی بی  دختر حافظ محمد رفیق ذات رحمانی  ساکن   کچی آبادی محلہ شہباز روڈ، تحصیل وضلع قصور یہ کہ میرا نکاح  مؤرخہ 13.06.2020 مطابق شریعت اسلامیہ  وقانون رائج الوقت ہمراہ اقصیٰ بی بی دختر حافظ محمد رفیق کے ساتھ ہوا ……………………….. لیکن فریق دوم بضد طلاق ہے  اس کے مطالبہ  کو سامنے رکھتے ہوئے  فریق اول کو نوٹس طلاق بھیج رہا ہوں  …………….. تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے‘‘

دوسرے طلاقنامے کی عبارت :

’’فریق اول: محمد اویس ولد منظور احمد ذات رحمانی ساکن کچی آبادی محلہ شہباز روڈ، تحصیل وضلع قصور۔ فریق دوم: اقصیٰ بی بی  دختر حافظ محمد رفیق ذات رحمانی  ساکن   کچی آبادی محلہ شہباز روڈ، تحصیل وضلع قصور یہ کہ میرا نکاح  مؤرخہ 13.06.2020 مطابق شریعت اسلامیہ  وقانون رائج الوقت ہمراہ اقصیٰ بی بی دختر حافظ محمد رفیق کے ساتھ ہوا …………….. اب میں مسماۃ مذ کوریہ کو  نوٹس طلاق دوئم بھیج رہا  ہوں اس سے قبل 20.07.2020 کو نوٹس طلاق اول بھیج دیا گیا ہے۔ ا س کے بعد فریق دوئم کی طرف سے طلاق مؤثر ہونے پر مجھے کوئی عذر یا اعتراض نہ ہوگا‘‘

تیسرے طلاقنامے کی عبارت:

’’فریق اول: محمد اویس ولد منظور احمد ذات رحمانی ساکن کچی آبادی محلہ شہباز روڈ، تحصیل وضلع قصور۔ فریق دوم: اقصیٰ بی بی  دختر حافظ محمد رفیق ذات رحمانی  ساکن   کچی آبادی محلہ شہباز روڈ، تحصیل وضلع قصور یہ کہ میرا نکاح  مؤرخہ 13.06.2020 مطابق شریعت اسلامیہ  وقانون رائج الوقت ہمراہ اقصیٰ بی بی دختر حافظ محمد رفیق کے ساتھ ہوا ………………اب میں مسماۃ مذکوریہ کو یہ نوٹس طلاق ثلاثہ (طلاق+طلاق ایک بار پھر دہراتے ہوئے رو برو گواہان  حاشیہ طلاق ثلاثہ بھیج رہا ہوں ا س سے قبل  نوٹس طلاق اول مؤرخہ 20.07.2020 اور نوٹس طلاق دوئم 21.08.2020 کو بھیج دیا گیا ہے …………….. لہذا تحریر پڑھ کر، سن کر، سمجھ کر معززین کے سامنے تسلیم ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے‘‘

وضاحت مطلوب ہے کہ: آپ دونوں کےدرمیان کبھی خلوت یعنی تنہائی کی نوبت آئی  تھی؟

جواب وضاحت:نکاح سے پہلے لڑکی کو اس کے والدین کے گھر سے لیا تھا اور نکاح کے فورا بعد وہاں چھوڑ دیا، تنہائی اور خلوت نہیں ہوئی۔

نوٹ: دارالافتاء کے نمبر سے لڑکی کے والد سے رابطہ کیا گیا  تو لڑکی اور ا س کے والد نے سائل کے بیان کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم دوبارہ نکاح کرنے لیے راضی ہیں۔(رابطہ کنندہ: محمد سلیمان)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ٹوٹ گیا ہے لہذا اگر میاں دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: شوہر نے خلوت صحیحہ سے پہلے تین طلاقناموں پر دستخط کیے ہیں  ،لہذا پہلے  طلاقنامے کے ان الفاظ سے کہ ’’مسماۃ مذکوریہ کو نوٹس طلاق اول بھیج رہا ہوں‘‘  ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی اور عدت نہ ہونے کی وجہ سے باقی طلاقنامے لغو ہو گئے۔

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:

قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.

درمختار مع ردالمحتار (499/4) میں ہے:

(قال لزوجته غير المدخول بها أنت طالق) يا زانية (ثلاثا)… (وقعن)….(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)

(قوله وإن فرق بوصف) نحو أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو خبر نحو: أنت طالق طالق طالق، أو جمل نحو: أنت طالق أنت طالق أنت طالق ح، ومثله في شرح الملتقى.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved