• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  ’’سات بجے کے بعد میرے ساتھ سوئی تو تجھے تین طلاق‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

میرا خاوند پراپرٹی ڈیلر  ہے اور روزانہ آفس جانے کی ٹائمنگ 10،9 بجے ہے لیکن کبھی  12،11 بھی  بج جاتے ہیں،  آفس میں کام کرنے والے دوسرے ساتھیوں  کے لیے گھر سے دوپہر کا کھانا بنوا کر لے جانے  کی ترتیب ہے اور گھریلو  روٹین کچھ اس طرح ہے کہ صبح فجر کی نمازکے بعد اعمال کرکے سب لوگ دوبارہ سوجاتے ہیں عورتیں  مردوں سے ذرا پہلے اٹھ کر کھانا بناتی ہیں اور آفس کے لیے کپڑے وغیرہ تیار کر دیتی ہیں جبکہ مرد حضرات 10،9 بجے اٹھ کر آفس جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔  مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح فجر کے بعد دوبارہ لیٹنے سے کبھی دیر سے آنکھ کھلتی ہے  تو کھانا بنانے میں   دیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ایک دن غصے میں آکر میرے خاوند نے مجھے یہ الفاظ کہہ دیئے کہ ’’اگر تو 7بجے کے بعد میرے ساتھ سوئی تو تجھے تین طلاق، سوائے جمعہ کے یا کبھی چھٹی ہو‘‘ یاد رہے اس سونے سے علیحدہ بستر پر 7بجے کے بعد سونا مراد نہیں تھا بلکہ ان کے بستر پر ان کے ساتھ لیٹنے کے اعتبار سے سونا مراد تھا اور یہ الفاظ اسی طرح کہے تھے جیسا کہ میں نے لکھے ہیں  اور ان کا یہ کہنا اس لئے تھا کہ تم میرے ساتھ سوئی رہتی ہو اور مجھے کھانا تیار کرکے دینے میں لیٹ کر دیتی ہو۔ اور اس سے پہلے مجھے میرا خاوند دو طلاق دے چکا ہے، تیسری طلاق کاحق باقی تھا جو کہ وہ بھی کہہ ڈالا۔ پہلی مرتبہ طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اس کے فورا بعد ہم نے رجوع کر لیا تھا، اور دوسری مرتبہ غصے میں یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘ اس کے بارے میں مسئلہ معلوم کر کے ہم نے تجدید نکاح کیا تھا،  اب صورت یہ پیش آئی کہ میں بیمار تھی 7ماہ کی پریگنٹ تھی میرے بچے کا پانی بالکل ختم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے لیڈی ڈاکٹرز نے مکمل بیڈ ریسٹ کا کہا تھا میں سارا دن لیٹی رہتی تھی اور جو کھانا بنانے کی ذمہ داری میرے سر تھی وہ اب نہیں رہی تھی گھر کی دوسری عورتیں کھانا بنا کر دیتی تھیں۔ ایسی صورت میں میرا خاوند اشراق کے بعد یعنی  کبھی ساڑھے سات، کبھی سوا سات، کبھی پونے آٹھ بجے میرے پاس آکر لیٹ جاتا تھا اور ہم دونوں کو یہ بات بھول گئی کہ اس طرح کے الفاظ کہے تھے کہ ’’اگر تم 7بجے کے بعد میرے ساتھ سوئی تو تجھے 3طلاق‘‘

اور بچے کی پیدائش کے بعد بھی کئی مرتبہ ہم لوگ سات بجے کے بعد دیر تک سوئے رہے لیکن جس دن ایسا ہوتا تھا میرے شوہر کام سے چھٹی کر لیتے تھے۔

اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ (1)اس صورت حال میں کیا مجھ پر تیسری طلاق پڑ گئی یا میرے لیے کوئی گنجائش باقی ہے؟

(2)اگر خدانخواستہ طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہے تو کیا میری عدت گزر چکی ہے؟ کیونکہ اس کے بعد بچے کی پیدائش ہو چکی ہے

(3)اگر حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے تو اب وضع حمل کے بعد حلالہ شرعی کی کیا صورت ہے؟ سنا ہے کہ حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے،  جبکہ حالت یہ ہے کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی  حلالہ شرعی کی وضاحت فرمائیں۔

شوہر کا بیان: میری مراد یہ تھی کہ فجر کے بعد گرمیوں کے موسم میں 7:00بجے کے بعد مسلسل سونے کی ترتیب نہ  ہو۔اب  یہ سونا اس سونے سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اب سونے کی ترتیب  پہلی ترتیب کے خلاف تھی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب اہلیہ کی ذمہ داری کھانا بنانے کی نہیں تھی لہٰذا اس پر یہ پابندی لازم نہیں آتی۔ کیونکہ ڈاکٹر کی Advise  کے مطابق ان کی بیڈ ریسٹ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے، لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے سات بجے کے بعد بیوی کے ساتھ سونے پر طلاق کو معلق کیا تھا  تو اگرچہ شوہر کی نیت خاص دنوں میں سونے  کی تھی یعنی ان دنوں میں سات بجے کے بعد سونا مراد تھا جن دنوں میں کھانا پکانے کی ذمہ داری بیوی کی ہو لیکن شوہر کی یہ نیت معتبر نہیں کیونکہ قسم کا دارو مدار الفاظ پر ہوتا ہے اور شوہر کے الفاظ میں یہ بات شامل نہیں تھی، لہذا حمل  کے دنوں میں جب میاں بیوی  سات بجے کے بعد اکٹھے سوئے تو شرط پائے جانے کی وجہ سے تیسری طلاق واقع ہو گئی۔

(2)  حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے چونکہ طلاق واقع ہونے کے بعد آپ کا بچہ پیدا ہو چکا ہے لہذا آپ کی عدت گزر چکی ہے۔

(3)حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا مکروہ تحریمی اور گناہ کبیرہ ہے، حدیث میں اس طرح حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت وارد ہوئی ہے ، البتہ اگر کوئی مرد حلالے کی شرط کے بغیر آپ سے نکاح کر لے اور وہ مرد کم از کم ایک دفعہ ہمبستری کر کے آپ کو طلاق دےد ے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس شوہر کی عدت گزرنے کے بعد آپ اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہیں۔

درمختار مع ردالمحتار (550/5) میں ہے:(الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراضوقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر، ولهذا قال في تلخيص الجامع الكبير وبالعرف يخص ولا يزاد حتى خص الرأس بما يكبس ولم يرد الملك في تعليق طلاق الأجنبية بالدخول اهـ ومعناه أن اللفظ إذا كان عاما يجوز تخصيصه بالعرف كما لو حلف لا يأكل رأسا فإنه في العرف اسم لما يكبس في التنور ويباع في الأسواق، وهو رأس الغنم دون رأس العصفور ونحوه، فالغرض العرفي يخصص عمومه، فإذا أطلق ينصرف إلى المتعارف، بخلاف الخارجة عن اللفظ كما لو قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق، فإنه يلغو ولا تصح إرادة الملك أي إن دخلت وأنت في نكاحي وإن كان هو المتعارف لأن ذلك غير مذكور، ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا.عالمگیری (1/420) میں  ہے:وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.درمختار  (193/5) میں ہے:(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)در مختار مع رد المحتار (5/51)میں ہے:(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط …… وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي(قوله: وتأويل اللعن إلخ) الأولى أن يقول وقيل تأويل اللعن إلخ كما هو عبارة البزازية ولا سيما وقد ذكره بعد ما مشى عليه المصنف من التأويل المشهور عند علمائنا ليفيد أنه تأويل آخر وأنه ضعيف. قال في الفتح: وهنا قول آخر، وهو أنه مأجور وإن شرط لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن عند هؤلاء إذا شرط الأجر على ذلك. اهـ. قلت: واللعن على هذا الحمل أظهر لأنه كأخذ الأجرة على عسب التيس وهو حرام. ويقربه أنه عليه الصلاة والسلام سماه التيس المستعار.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved