• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح طلاق دینے کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ***نے اپنی زوجہ کو ایک دفعہ طلاق دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دے دی‘‘ اور اس کے بعد یہ الفاظ  کہے کہ ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے، اسے لے جاؤ‘‘ اس کے بعد ***نے اپنی بیوی کے بھائی سے بھی فون پر کہا کہ ’’آپ کی بہن میری طرف سے فارغ ہے اس کو لے جاؤ‘‘ اور اپنی ساس کو بھی فون پر یہی الفاظ کہے اس بات کو تقریبا چار ماہ گزر گئے ہیں شوہر نے کسی قسم کا رجوع نہیں کیا، اس مسئلے کا حل بتا دیں۔

نوٹ: لڑکی کے والد سے رابطہ کیا گیا تو لڑکی اور اس کے والد نے واقعہ کی تصدیق کی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا شوہر نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دے دی‘‘ اور  ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے، اسے لے جاؤ‘‘  تو ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ:شوہر کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے   بیوی سے یہ کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دے دی‘‘ تو ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، پھر اس کے فورا بعد جب شوہر نے کہا کہ  ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے، اسے لے جاؤ‘‘ تو ان الفاظ سے سابقہ رجعی طلاق  بائنہ بن گئی، کیونکہ شوہر کے الفاظ ’’یہ میری طرف سے فارغ ہے، اسے لے جاؤ‘‘   کنایات طلاق میں سے ہیں، اور صریح طلاق کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے سے صرف وصف میں اضافہ ہوتا ہے یعنی سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن جاتی ہے لیکن عدد میں اضافہ نہیں ہوتا۔اور البائن لا یلحق البائن کے تحت متعدد مرتبہ یہ الفاظ بولنے کے باوجود ایک طلاق واقع ہوئی ہے ۔

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

درمختار (4/531) میں ہے:

(لا) يلحق البائن (البائن)

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے  ’’ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان‘‘

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved