• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح طلاق کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

میری اپنی بیوی کے ساتھ گھریلو معاملات میں لڑائی ہوئی، لڑائی کے دوران میں نے کہا کہ ’’میں تجھے طلاق دے دوں گا، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے نہیں رکھنا، میں نے تجھے فارغ کیا‘‘ پھر کچھ دیر بعد دو دفعہ فارغ والے الفاظ دوبارہ استعمال کیے تھے۔ یہ الفاظ بولتے وقت میں غصے میں تھا، اور مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی، کوئی توڑ پھوڑ وغیرہ نہیں کی، صرف بیوی پر ہاتھ اٹھایا تھا، یعنی تھپڑ مارا تھا۔

بیوی کا بیان:

 میں نے لڑائی کے دوران طلاق کا جملہ ایک مرتبہ سنا ہے میرے شوہر نے کہا کہ ’’تجھے طلاق چاہیے؟ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اور کچھ دیر بعد کہا کہ ’’میں نے اس فارغ کر دینا ہے‘‘ یہ بھی مجھے نہیں کہا بلکہ بہنوئی کو کہا تھا۔

سائل: محمد آصف

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے مطابق ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ:دوبارہ نکاح کرنے کے بعدشوہر کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے   بیوی سے یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘تو اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ یہ مستقبل کا جملہ ہے جس سے شوہر فی الحال طلاق واقع نہیں کر رہا بلکہ مستقبل میں طلاق دینے کے ارادے کا اظہار کر رہا ہے،  پھر اس کے بعد جب شوہر نے بیوی سے یہ کہا کہ ’’ میں نے تجھے طلاق دی‘‘ تو ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، پھر اس کے فورا بعد جب شوہر نے کہا کہ  ’’ میں نے تجھے نہیں رکھنا، میں نے تجھے فارغ کیا‘‘ تو ان الفاظ سے سابقہ رجعی طلاق  بائنہ بن گئی، کیونکہ شوہر کے یہ الفاظ   کنایات طلاق میں سے ہیں، اور صریح طلاق کے بعد کنایہ الفاظ استعمال کرنے سے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا، صرف وصف میں اضافہ ہوتا ہے یعنی سابقہ رجعی طلاق بائنہ بن جاتی ہے،اور  لا یلحق البائن البائن کے تحت متعدد مرتبہ کنایہ الفاظ بولنے کے باوجود ایک طلاق واقع ہوئی ہے ۔ نیز مذکورہ صورت میں  اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے، لیکن غصے کی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ  اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، اور نہ ہی اس سے خلاف عادت کوئی قول یا فعل سرزد ہوا،  غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں  طلاق واقع ہو گئی ہے۔

عالمگیری (384/1) میں ہے:

فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك.في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا.

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله …………….فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح) مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع

درمختار (4/531) میں ہے:

(لا) يلحق البائن (البائن)

امداد المفتین (511) میں ہے:

فى الخلاصة: وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن(خلاصۃ الفتاوی صفحہ 82 جلد 2)   اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ کنایہ اگر مطلقہ رجعی کے حق میں بولے جائیں تو طلاق جدید کی نیت کرنے سے طلاق جدید واقع ہوجاتی ہے اور کچھ نیت نہ کرنے سے پہلی طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved