• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح طلاق دینے کے بعد تحریری طلاق دینے کا حکم

استفتاء

میرا نام**ہے، 1981ء میں میری  شادی ***سے ہوئی، میرے پانچ بچے ہوئے ایک اللہ کو بچپن میں ہی پیارا ہوگیا تھا،** ایک فوجی افسر تھے مزاج میں بہت سختی ہے، معمولی باتوں پر مارنا پیٹنا ان کا معمول تھا، مارنے میں بیٹیوں کو  بھی نہ چھوڑا، مجھ سے پہلے ایک بیوی کو طلاق دے چکے ہیں جس  کی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ ** تبلیغی جماعت کے سرگرم رکن رہ چکے  ہیں میں نے بھی الحمد للہ جماعت میں وقت لگایا ہے** نے مجھے پیسے کے معاملے میں کبھی تنگ نہیں کیا مکمل اختیار میرے پاس تھا، حج وعمرہ بھی کروایا مگر انہوں نے کبھی مجھے عزت نہیں دی، اپنے گھر والوں کے سامنے ہمیشہ مجھے بے عزت کیا، مار پیٹ کے نتیجے میں انہوں نے میری انگلی بھی توڑ دی تھی، ** نے اکیس  سال پہلے مجھے مشروط طلاق دی کہ ’’اگر میرے ساتھ کھانا کھایا تو تمہیں طلاق ہے‘‘ تو میں نے اس کے بعد سے ان کے ساتھ کھانا نہ کھایا کہ میرا گھر خراب نہ ہو ۔ تین سال پہلے انہوں نے مجھے ایک طلاق دی جس کے الفاظ یہ تھے ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اور اسی دن رجوع کرلیا۔*** کو**نے مجھے واضح الفاظ میں طلاق دی کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ جسے صرف میں نے ہی سنا بعد میں اپنی  بھولنے کی بیماری کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ میں نے پہلی طلاق دی ہے پہلی دو طلاقیں جن میں سے ایک مشروط تھی وہ بھول چکے تھے لیکن مجھے یاد تھا کیونکہ تقریباً دو سال سے  ** کو بھولنے کا عارضہ ہوگیا ہے ویسے دماغی اعتبار سے وہ ٹھیک ہیں، اس طلاق کے بعد ہم علیحدہ کمروں میں رہنے لگے ابھی تک رجوع نہیں ہوا،  اس کے بعد اسی دن میری والدہ بہاولپور سے آئی ہوئی تھیں ان سے کہا کہ اس کو بہاولپور لے جائیں نہیں  تو طلاق ہے اسی دن میری بیٹی کو جائیداد کے کچھ کاغذات دئیے ان کاغذات میں جہاں میرانا م تھا  اس کے اوپر طلاق کا لفظ لکھا ہوا  تھا مختلف جگہوں پر میرے نام کے اوپر تقریباً سات جگہ طلاق کالفظ لکھا تھا ان کو یاد نہ تھا کہ انہوں نے یہ کب لکھا انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان سب ختم ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارا رشتہ ختم ہو گیا ہے یا کوئی گنجائش باقی ہے؟

شوہر کا بیان:

دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا:

میں بیوی کے بیان کی تائید کرتا ہوں، اس نے سب کچھ درست بتایا ہے،  طلاق مشروط کرنے کے بعد ہم نے کبھی اکٹھے کھانا نہیں کھایا، پہلی طلاق کے بعد اسی دن رجوع کر لیا تھا، دوسری طلاق کے بعد رجوع نہیں کیا،  اور کاغذ پر طلاق کے الفاظ بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے ہی لکھے تھے لیکن یاد نہیں کہ کب لکھے تھے  البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ پہلی طلاق کے بعد لکھے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے  بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی سے کہا کہ’’اگر میرے ساتھ کھانا کھایا تو تمہیں طلاق ہے‘‘ تو اس سے میاں بیوی کے اکٹھے کھانا کھانے پر طلاق معلق ہو گئی لیکن چونکہ اس کے بعد میاں بیوی نے کبھی اکٹھے کھانا نہیں کھایا اس لیے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، پھر تین سال پہلے جب شوہر نے بیوی سے یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘  تو  ان الفاظ  سےایک رجعی طلاق واقع ہو گئی اور رجوع کر لینے کی وجہ سے نکاح باقی رہا، پھر اس کے بعد جب شوہر نے کاغذ پر طلاق کی نیت سے تین سے زیادہ مرتبہ طلاق کا لفظ لکھا تو  اس لکھنے سےمزید دو طلاقیں واقع ہو گئیں  اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی    کیونکہ  مذکورہ صورت میں  طلاق کی تحریر کتابتِ مستبینہ غیر  مرسومہ ہے اور  کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ  سے شوہر کی طلاق کی نیت   ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

فتاوی شامی (4/442) میں ہے:

قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved