• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصہ کی حالت میں طلاق

استفتاء

دوماہ پہلےمیری اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی بات پر لڑائی ہوئی ۔ کچھ عرصہ سے میری حالت ایسی تھی کہ جب بھی میں اپنے والد صاحب  یا بھائی وغیر ہ  کے ساتھ جھگڑتا  تو میں آپے سے نکل جاتا تھا اور میرا اپنے دماغ پر بالکل کنٹرول  نہیں  رہتا تھا۔ مجھ پر اتنی ذہنی دباؤرہتا ہے  کہ میں تقریبا 15 موبائل توڑچکا ہوں ۔نوکری سے فارغ ہونے کے بعد بہت چڑچڑا رہتا تھا جس کی وجہ سے میں نے اپنے افسران  کے خلاف درخواست دائر کی ہے، اور  یہی چیز میرے دماغ پر سوار تھی۔میری اہلیہ  کا تقاضہ تھا کہ آپ پچھلی  تنخواہوں  کو چھوڑدیں اور نئے سرے سے ملازمت  شروع کریں (اس بات کی آفر مجھے افسران  نے بھی دی ہے لیکن میں سابقہ تنخواہ  کی وصولی پر بضد تھا )۔ اسی سلسلے میں ایک دن میری اپنی اہلیہ سے لڑائی ہوئی اور میں اتنے غصے میں آگیا کہ اگر میرے پاس کوئی پستول ہوتی تو میں اس کو گولی بھی ماردیتا ۔اور غصے  کی یہ کیفیت تھی  کہ میں  اپنے والد  صاحب  کو بھی گالی دے بیٹھا جبکہ عام حالت میں مجھےان کے سامنے بات کرنے کی جرأت بھی نہیں ہوتی ۔اسی دوران میں نے ایک کیتلی اور دو گلدان  بھی دوڑدئیے ۔اسی لڑائی میں میں نے اپنی بیوی سے پہلے یہ کہا  کہ "میں تمہیں تین طلاقیں دے دوں گا”(میں آپ کو تین پتھر کروں گا) اس کے تقریبا پندرہ منٹ بعد  میں نے اس کو کہا کہ ” ماته طلاقه کړی يې،طلاقه کړې يې،طلاقه کړي يې، (میں نے تمہیں طلاق کردیا،طلاق کردیا ، طلاق کردیا  )

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

توجیہ:طلاق دیتے وقت اگر شوہر کواتنا شدید  غصہ ہو کہ  اس  سے خلاف عادت اقوال وافعال  صادر ہونے لگیں تو غصے کی ایسی حالت میں  دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی ۔چونکہ مذکورہ صورت میں  بھی طلاق دیتے وقت شوہر سے خلاف عادت اقوال و

افعال  یعنی یعنی والدصاحب کو گالی دینا،  کیتلی اور گلدانوں  کو توڑنا صادر ہوئے ہیں لہذا  مذکورہ صورت  میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ۔

ردالمحتار(4/439) میں ہے:

قلت :وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها :إنه على ثلاثة أقسام :أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه 

الثاني: أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله

الثالث :من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله …..فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته ، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته : فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved