• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے کی حالت میں طلاق دینا

استفتاء

عید الفطر کے دن میں*** عصر کی نماز پڑھ کر اپنے گھر میں آیا اور میری بیوی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی، میں نے ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور ان سے کتاب لے کر دیوار پر رکھ دی۔ اور میں چار پائی پر لیٹ گیا، اور میں نے ہنسی مذاق میں اس کا بازو پکڑا اور کہا کہ میری بھی کوئی بات سن لے۔ تو اس نے کہا کہ میرے ساتھ ایسی بات نہ کر ۔ پھر مغرب کا وقت ہوگیا میں مغرب کی نماز پڑھنے چلا گیا جب واپس آیا پھر میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہ کتاب کے مطالعے میں مصروف رہی، میری بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اور اس نے کہا کہ میرے مخصوص ایام شروع ہیں، جبکہ اس نے اسی دن کی مغرب کی نماز بھی پڑھی ۔ تو مجھے اس کے رویے پر غصہ آگیااور میں نے کہا کہ مجھے اپنی زبان سے کچھ کہنے پر مجبور نہ کر اور میں سر دیوار پر مارنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی میں  نے "طلاق، طلاق، طلاق” کے الفاظ تین مرتبہ کہہ دیے۔ لیکن اس دوران میری بیوی نے نہ میرا بازو پکڑا اور نہ ہی مجھے روکا۔ اب میرے چار بچے ہیں اور میں بہت زیادہ پریشان ہوں۔

نوٹ: جس وقت میں نے طلاق کے الفاظ کہے اس کے بعد میں بے ہوش ہوگیا ۔ اب میری بیوی کہتی ہے دو دفعہ طلاق کا لفظ بولا ہے اور ساس کہتی ہے کہ تین دفعہ بولا ہے۔

وضاحت: سائل کو غصہ کی یہ کیفیت پہلی مرتبہ پیش آئی ہے۔ بے ہوش ہونے سے مراد ہے کہ بے سدھ ہوگیا۔

بیوی کا بیان

واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ میں سلائی کے کام کی وجہ سے بہت تھکی ہوئی تھی، عید کے دن میں سارا دن نیچے سوئی رہی۔ اور جب میں چھت کے اوپر گئی تو میرے میاں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، لیکن میں راضی نہ ہو ئی، مجھ سے یہ غلطی ہوگئی کہ ان کی ہاں میں میں نے نہ کردی۔ جس کی وجہ سے ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکلے تو بعد میں پریشان ہوگئے ۔ میں بھی پریشان ہوگئی، کہ ایسا تو انہوں نے کبھی نہ کیا تھا یہ کیسے ہوگیا۔ عید کے دن میں مغرب کی نماز پڑھی اس کے بعد میں ناپاک ہوگئی میں نے انہیں بتایا تھا لیکن انہوں نے صحیح طرح سنا ہی نہیں۔ بہر حال جو کچھ بھی ہوا ہے، غصے میں ہی ہوا ہے۔ اب ہم دونوں ہی پچھتا رہے ہیں۔ اب اگر اللہ کے حضور میں اس غلطی کی معافی  ہے تو بتادے مگر اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔

ٹکر ضرور تین دفعہ ماری ہیں، ٹکر مارنے کے بعد یہ لفظ بولے ہیں ” طلاق، طلاق، طلاق "۔ یہ کہہ کر چار پائی پر لیٹ گئے، مگر ہوش نہیں تھا سر چکرا سا گیا، بعد میں میری امی سے کہنے لگے کہ میرے ساتھ بھیجو، تو امی نے کہا کہ رشتہ تو توں ٹوڑ بیٹھا ہے اب کیوں بھیجیں۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے مجھے معاف کر دو۔

۱۔ بیہوش نہیں ہوئے۔

۲۔ ٹکریں مارنے کا عمل پہلے بھی تھا۔

۳۔ کوئی اور غیر معمولی کام نہیں  ہوا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعہ حقیقت میں ایسا ہی ہے جیسا کہ ذکر ہے تو غصہ کی ایسی حالت کہ آدمی اپنا سر دیوار میں مارنے لگے خلاف عادت کام ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کے ہوش و حواس قائم نہیں اور ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر و الأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارضه عن عادته و كذا … يقال فيمن اختل عقله لكبر أو مرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها لأن هذه المعرفة و الإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح.( رد المحتار: 2/ 463 ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved