• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصہ کی حالت میں تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میرا نام*** ہے،میری بیوی کا نام*** ہے،ہم       لا  ہور کے رہائشی ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ دس محرم الحرام کو  ہمارا میاں بیوی کا جھگڑا ہوا،جھگڑا اس طرح ہوا کہ میں اور میری بیوی نیاز پکانے کی تیاری کر رہے تھے میرے کمرے کے ساتھ ہی صحن اور کچن ہے ،میرے والد صاحب بیمار ہیں وہ آرام کر رہے تھے اور صحن میں ایک چولہا رکھا ہوا تھا میری بیوی*** چولہے پر کھانا پکا رہی تھی ،چولہے سے میرے والد صاحب کو تکلیف پہنچ رہی تھی ،اس جگہ میرا بڑا بھائی **موجود تھا وہ یہ سب دیکھ رہا تھا ،میرے والد صاحب نے کہا کہ بیٹا ** چولہا جلےگا تو میری طبیعت  اور زیادہ خراب ہو جائے گی ،میرے بڑے بھائی نے میری بیوی سے کہا کہ یہ چولہا بند کرو اور کھانا کچن میں جا کر پکاؤ،میری بیوی نے میرے بڑے بھائی***کی بات نہیں مانی اور میرے بڑے بھائی **** نے میری بیوی کو کہا کہ تمہیں چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں ہے،اس بات پر میری بیوی** نے کہا کہ تم بڑے ہو اپنی عزت کرواؤ،یہ بات سن کر میرے بڑے بھائی***نے غصے میں آکر چولہے پر رکھی ہانڈی اتار کر نیچے رکھ دی اور چولہا اٹھا کر پھینک دیا اور کہا کہ میرے سامنے اس طرح نہ بولواپنے شوہر کے سامنے اس طرح بولا کرو ،میرا چھوٹا بھائی*** مجھے اجازت دے تو میں تمہارے منہ پر تھپڑ لگادوں ،میں ** یہ سب باتیں سن رہا تھا اور دیکھ رہا تھا، میں نے دلبرداشتہ ہو کرغصے میں  گھر کی چیزیں ہانڈی،پنکھا،ٹیبل فین اور بچی کی واکر وغیرہ  کو پھینکنا شروع کردیا  اور میری بیوی اس وقت کمرے میں موجود تھی اور میں نے طلاق کے تین لفظ بولے ہیں ،ہمارے علاوہ کمرے میں کوئی اور موجود نہیں تھا ،اس وقت میں نے یہ لفظ بولے کہ "میں تمھیں اپنے ہوش وحواس میں تمھیں طلاق دیتا ہوں "طلاق کا لفظ میں نے تین بار کہا اور پھر کہا کہ” اپنا بستر اٹھاؤیہاں سے چلی جاؤ اب تم مجھ پر حرام ہو” یہ سب میں کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ میں نے جو غصے میں کہا ہے اللہ تعالی مجھے معاف کردے اور میرے چھوٹے بچے ہیں آپ سے عرض ہے کہ آپ اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔کیونکہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت شدید غصہ کی وجہ سے اگر شوہر کی ایسی حالت ہوجائے کہ اس سے خلاف عادت اقوال وافعال صادر ہونے لگیں تو  غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی۔مذکورہ صورت میں بھی جب شوہر نے طلاق کے الفاظ بولے تو اس وقت اس سے خلاف عادت افعال مثلا ہانڈی،پنکھا،ٹیبل  فین اور بچی کی واکر  پھینکنا وغیرہ صادر ہوئے ہیں،لہذا غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں۔

شامی(439/4)میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده ،وهذا لا إشكال فيه۔ الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه…………..وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وافعاله الخارجة عن عادته………  فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved