• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دینا تاکہ اس کی ماں اس سے قطع رحمی سے بچ جائے

استفتاء

ایک بندے کے کچھ عائلی مسائل ہیں، جن میں وہ شریعت کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتا ہے، آنجنات کی خدمت میں وہ مسائل پیش ہیں، از راہ کرم ان کا شرعی حکم بیان کردیجیے، واجرکم علی اللہ۔

زید اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہے، صوم وصلاۃ کا پابند ہے، ماں نے ایک دیندار گھرانے میں اس کی شادی کرائی، اس کے چار بچے ہوئے، اس کے بعد زید نے ماں سے چھپ کر دوسرا نکاح کیا، اس نکاح میں لڑکی کے والدین اور بھائی حاضر اور رضامند تھے، دوسرے نکاح کی وجہ سے زید کی والدہ کو شدید صدمہ ہوا، اور وجہ وہ یہ بیان کرتی ہیں کہ دوسری منکوحہ ان سے کم ذات کی ہیں، اور یہ کہ اس کے خاندان آزاد اور بے پردہ ہیں، اس لیے انہوں نے زید سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا،حتی کہ اس کی طرف سے کسی قسم کی بھی صلہ رحمی یا حسن سلوک کو قبول کرنے سے انکار کیا، زید کی والدہ بیوہ بھی ہیں، ان کا اپنے تمام گزر بسر کے لیے زید ہی پر انحصار تھا، اب وہ اس سے کچھ کھانے پینے کے لیے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، پورا رمضان انھو ں نے سحری اور افطاری میں صرف لسی اور سوکھی روٹی پر گزارہ کیا ہے، شوگر کی مریض بھی ہیں، اب زید سے علاج بھی نہیں قبول کرتیں، اس کے علاوہ زید کے ان رشتہ داروں کو جو اس کے دوسرے نکاح میں شامل ہوئے یا نکاح کے بعد اس کی منکوحہ سے ملنے آتے ہیں ان کو زید کی والدہ بہت کوستی رہتی ہیں اور برا بھلا کہتی ہیں، ان سے بھی قطع تعلقی کر لی ، ان رشتہ داروں میں زید کی والدہ کی سگی خالہ بھی شامل ہیں، زید اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہے، اور دوسری منکوحہ کو بھی وہیں رکھا ہے، زید کی والدہ اس کی دوسری منکوحہ کے کسی بھی رشتہ دار حتی کہ والدین کا بھی اس سے ملنے کے لیے آنے کو سخت ناپسند کرتی ہیں، زید کو اس بات کا بہت قلق ہے کہ اس کی والدہ اس کے دوسرے نکاح کے سبب غیبت اور قطع رحمی جیسے گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنی آخرت خراب کر رہی ہیں۔

دوسری طرف زید کی دوسری منکوحہ کی کچھ عادتوں کی وجہ سے زید کو اس سے شدید اذیت بھی پہنچ رہی ہے، ان میں سے نمایاں بات یہ ہے کہ اس کی دوسری منکوحہ اپنے غیر محرم رشتہ داروں سے بے تکلفی سے باتیں کر لیتی ہے، اس کے غیر محرم رشتہ دار اس کو فون بھی کر لیتے ہیں، اور یہ جب بھی اپنے میکے جائے تو وہ ملنے بھی آتے ہیں، ان میں کئی ایسے رشتہ دار بھی ہیں جو کردار کے اچھے نہیں ہیں، زید نے اپنی دوسری منکوحہ کو بار ہا منع کیا ہے ، او ر سمجھایا ہے ، اور اس کے والدین اور بھائی سے گلہ بھی کیا ہے، اور ڈانٹ ڈپٹ بھی کی ہے ، لیکن اس کی منکوحہ باز نہیں آئی، بلکہ اب زید کے ڈر سے اس طرح بات کرتی ہے کہ اس کو پتہ نہ چلے۔ زید کو جب کبھی کام کی وجہ سیے کچھ دن گھر سے دور رہنا ہو تو اس کی دوسری منکوحہ اس کو بتائے بغیر اپنے رشتہ داروں کو ملنی چلی جاتی ہے، زید کے لیے یہ بات غیرت کا مسئلہ بن گئی ہے، اگرچہ زید یہ اقرار کرتا ہے کہ اس نے جتنا کھوج لگایا ہے اس میں اس کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ اس کی منکوحہ اپنے غیر محرم رشتہ داروں سے بے حیائی کی باتیں کرتی ہے، باتیں اگرچہ عام روز مرہ کی ہیں، لیکن چونکہ وہ رشتہ دار غیر محرم ہیں اور اچھے کردار کے حامل بھی نہیں ہیں، اس لیے زید کو اس بات کی وجہ سے بہت اذیت ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ:

۱۔کیا زید کے لیے شرعا اس بات میں گنجائش ہے کہ وہ اپنی دوسری منکوحہ کو اس وجہ سے طلاق دے دے کہ امید ہے کہ اس وجہ سے اس کی والدہ قطع رحمی اور غیبت جیسے گناہوں سے بچ جائیں گی، جب کہ ان کا زید سے مستقل مطالبہ بھی ہے کہ وہ اپنی دوسری منکوحہ کو طلاق دے؟

۲۔کیا زید اس بات کو جاننے کے باوجود کہ اس کی دوسری منکوحہ اس سے چھپ کر اپنے غیر محرم رشتہ داروں سے بات چیت کر لیتی ہے ، اس کو طلاق نہ دینے پر گناہ گار ہوگا؟ یا دیوث ہونے کے زمرے میں آئے گا؟

واضح رہے کہ زید کا اپنی دوسری منکوحہ سے ایک بیٹا بھی ہو گیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ صورت میں شرعاً اگرچہ اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنی دوسری منکوحہ کو طلاق دیدے لیکن سمجھداری کی بات یہ تھی کہ جو حالات و واقعات اب پیش آرہے ہیں زید ان کو پہلے سے ملحوظ رکھ کر دوسری شادی کرتا لیکن اب جبکہ وہ بغیر سوچے سمجھے دوسری شادی کر چکا ہے اور ایک بچہ بھی پیدا ہو چکا ہے اور طلاق دینے کی صورت میں بیوی، بچے کا مستقبل خراب ہونے کے قوی امکانات ہیں تو زید کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان اس رشتے کو نبھانے کی کوشش کرے اور طلاق دینے سے گریز کرے۔

۲۔ مذکورہ صورت میں چونکہ گفتگو ناجائز یا بے حیائی کی نہیں ہے اس لیے زید نہ تو گنہگار ہو گااور نہ دیوث کے زمرے میں آئے گا البتہ بیوی کو شوہر کے منع کرنے کے باوجود ایسا کرنا جائز نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved