• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہرکا  اپنی بیوی کو مختلف اوقات  میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

. میں مسمی*****نے آج سے تقریبا ڈیڑھ سال پہلے اپنی بیوی مسماۃ*** کو غصے میں ایک مرتبہ موبائل پر تحریری  میسج کیا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”ساتھ میں گالی بھی دی اور میسج کرتے وقت میری طلاق کی نیت نہیں تھی،جب میں نے  میسج کیا   اس وقت  میری بیوی  اپنی امی کے گھر تھی، دو دن  بعد میری بیوی گھر واپس آئی تو ہم نے آپس میں رجوع کر لیا ، پھر اس واقعہ کے چھ سے سات ماہ بعد میں نے غصے میں ایک مرتبہ اپنی بیوی کو بولا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” اور ساتھ گالی بھی دی اور غصے میں کوئی خلاف عادت کام نہیں کیا  تھا اور غصے میں مجھے علم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں  اور کیا کررہا ہوں لیکن طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا، دو سے تین دن بعد ہماری آپس میں صلح ہوگئی اور  ہم نے رجوع کرلیا ۔اس واقعہ  کے ایک سال بعد ابھی دو دن پہلے گھر میں جھگڑا کی صورت میں میں نے غصے میں اپنی بیوی کو ایک مرتبہ بولا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”،مگر نیت کبھی بھی طلاق دینے اور علیحدہ ہونے کی نہیں تھی، شدید دباؤ اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے یہ الفاظ بولے گئے تھے۔اب ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے رشتے میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہےاور کوئی شرعی لحاظ سے معافی یا تجدید نکاح کی کوئی  ضرورت ہے؟کیا ہم اکھٹے رہ سکتے ہیں؟ کیا ہمارا رشتہ قائم ہے؟

تنقیح:تیسری مرتبہ طلاق دیتے وقت  شوہر نے غصے کی شدت کی وجہ سے ٹیبل توڑے تھے اور ایک ٹیبل سر میں مارنے لگا تھا تو بیوی نے پکڑلیا، اس وقت بلڈپریشر بھی بہت زیادہ ہائی تھا۔

نوٹ:دارالافتاء کے نمبر سے  بیوی سے رابطہ کیا گیا تو بیوی نے اس ساری صورتحال کی تصدیق کی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر بیوی کے سامنے اس بات پر قسم دے دے کہ تحریری میسج  سے اس کی طلاق کی نیت نہیں تھی تو ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی ہے۔ اور اگر شوہر بیوی کے سامنے قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی اپنے حق میں دو رجعی طلاقیں شمار کرے گی۔ رجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کرنے سے رجوع ہوجاتا ہے لہٰذا شوہر کا عدت کے اندر رجوع کرنا درست ہے اور نکاح قائم ہے۔

نوٹ: شوہر اگر بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر  قسم دے  دے تو شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا اور اگر قسم دینے  سے انکار کرے تو بیوی کے حق میں شوہر کے لیے صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ:ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر  کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہے  اور کتابت مستبینہ غیر مرسومہ سے شوہر کی طلاق کی نیت ہو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اگر شوہر کی  طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی،مذکورہ صورت میں چونکہ  میسج کے ان الفاظ سے کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی لہذا کوئی طلاق نہیں ہوئی، لیکن شوہر کو طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دینی ہوگی،  اگر شوہر قسم دینے سے انکار کرے تو بیوی اس میسج سے ایک رجعی طلاق شمار کرے گی۔  پھر اس واقعہ  کے چھ سے سات ماہ بعد جب شوہر نے غصے کی حالت میں  ایک مرتبہ اپنی بیوی کو کہا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” تو ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی کیونکہ  اگر چہ شوہر نے غصہ کی حالت میں طلاق دی تھی لیکن غصے کی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ   شوہر کو علم ہی  نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہےاور کیا کررہا ہےاور نہ ہی شوہر  سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل صادر ہوا ہےاور  غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے،پھر  چونکہ شوہر نےعدت کے اندر  رجوع کرلیا تھا اس لئےنکاح باقی رہا،پھر اس واقعہ کے ایک سال بعد جب شوہر نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو کہا کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” تو ان الفاظ سے کوئی طلا ق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت شدید غصہ کی وجہ سے اگر شوہر کی ایسی حالت ہوجائے کہ اس سے خلاف عادت افعال واقوال  صادر ہونے لگیں تو  غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی۔مذکورہ صورت میں بھی جب شوہر نے طلاق کے الفاظ بولے تو اس وقت شوہر کا بلڈپریشر ہائی تھا اور اس سے خلاف عادت افعال مثلا ٹیبل توڑنا اور اپنے سر میں ٹیبل مارنا صادر ہوئے ہیں،لہذا غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں۔

ردالمحتار(442/4)میں ہے:قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا وهو على وجهين مستبينة وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لاالبحر الرائق (3/519) میں ہے:إذا قال: لم أنو الطلاق ‌فعليه ‌اليمين إن ادعت الطلاق، وإن لم تدع يحلف أيضا حقا لله تعالى قال أبو نصر قلت لمحمد بن سلمة يحلفه الحاكم أم هي تحلفه قال يكتفى بتحليفها إياه في منزله فإذا حلفته فحلف فهي امرأته وإلا رافعته إلى القاضي، وإن نكل عن اليمين عنده فرق بينهما اهـدرمختار مع ردالمحتار(443/3)میں ہے:(صريحه مالم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) ……………  (ويقع بها) أى: بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح (واحدة رجعية)عالمگیری(470/1)میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهدايةبدائع الصنائع(295/3)میں ہے:أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العددردالمحتار(439/4)میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده ،وهذا لا إشكال فيه۔ الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه…………..وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وافعاله الخارجة عن عادته………  فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved