• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا بیوی کو”آئندہ تم گھر سے نکلی تو تمہیں طلاق” کہنے کا حکم

استفتاء

اگر خاوند غصے میں اپنی بیوی کو کہہ دے کہ "اگر  آئندہ تم گھر سے باہر نکلی تو تمہیں طلاق "خاوند اپنی کہی بات واپس لینا چاہے تو کیا کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاو ند کے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہنے سے  کہ "اگر آئندہ تم گھر سے باہر نکلی تو تمہیں طلاق "بیوی کے گھر سے نکلنے پر ایک رجعی طلاق معلق ہو گئی  ہے اور جب طلاق کو معلق کردیا جائے توشوہر کے پاس  اس کو واپس لینے کا اختیار نہیں  ہوتا،لہذا اگر بیوی گھر سے نکلی تو ایک طلاق رجعی واقع  ہو جائے گی ،جس کا حکم یہ ہے کہ دوران عدت شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا  اور اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت  گزرنے کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا اور اکٹھے رہنے کے لئے  کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا اور اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔

نوٹ: طلاق واقع ہونے کے بعد رجوع کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق ہوگا۔

عالمگیری(420/1)میں ہے:

واذا اضافه الى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته ان دخلت الدار فانت طالق

عالمگیری(415/1)میں ہے:

 ألفاظ الشرط ان واذا واذاما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الالفاظ اذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لانها لا تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده الا في كلما

المحيط البربانی(5/59) میں ہے:

و يعتبر من جانب الزوج يميناً  و تعليقاً للطلاق لقبولها، حتى لو قال لها: خالعتک على کذا، ثم رجع عنه قبل قبول المرأة لا يصح رجوعه

عالمگيری(408/2)میں ہے:

واذا طلق الرجل أمراته تطليقة رجعية او تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذالك او لم ترض،كذا في الهدايه

بدائع الصنائع(283/3)میں ہے:

أما الطلاق الرجعى فالحكم الأصلى له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلى له لازم حتى لا يثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved