• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو غصے میں ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

شوہر (حسنین خان) کا بیان:

’’میں نے اپنی بیوی سے لاہور جانے کے لیے شاپر مانگا کیونکہ میں نے لاہور اپنی بہن کے گھر ٹھہرنا تھا، میں روز لاہور آتا تھا، سردی تھی، میں نے سوچا ایک رات ٹھہر کے اپنا کام کرکے واپس آؤں گا، میری بیوی نے کہا کہ میں بھی آپ کے پیچھے لاہور آجاؤں گی،  حالانکہ وہ کچھ روز پہلے میری والدہ کے ساتھ میری بہن کے گھر 5 یا 6 دن رہ کر آئی تھی۔ اس کی اس بات پر مجھے شدید غصہ آگیا، میں نے کہا کہ یہاں سے چلی جاؤ، میں تمہیں طلاق دے دوں گا، وہ وہاں سے چلی گئی، جب وہ میرے پاس سے گزری تو میں نے اس کی گردن کی پچھلی طرف تھپڑ مارا، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں نے کیوں مارا؟ اتنا شدید غصہ آگیا کہ میرے منہ سے طلاق، طلاق، طلاق نکل گیا، نہ میری نیت تھی، نہ ارادہ اور نہ دماغ میں ایسی کوئی بات چل رہی تھی، مجھے ایسا لگا کہ میرے اندر کوئی چیز آئی اور یہ بول کر فوراً نکل گئی، میں بیڈ پر گرگیا اور چیخ چیخ کر رونا شروع ہوگیا، یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر بندہ طلاق دے، میرا دھیان کہیں اور تھا اور دماغ آؤٹ آف کنٹرول ہوگیا، جب میں نے یہ بولا تو وہ کمرے سے نکل رہی تھی، دروازے سے باہر تھی، اس کی کمر میری طرف تھی اور مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ میرے پاس کھڑی تھی، یہ الفاظ میں نے اتنی سپیڈ سے بولے یہ بھی یاد نہیں کیوں بولے اور کتنی بار بولے، چار پانچ مرتبہ بولے یا زیادہ، پھر میں نے رونے اور چیخنے کے بعد بھابی سے کہا کہ اب یہ خوش ہے۔‘‘

بیوی کا بیان:

’’میرے شوہر دیر سے سو کر اٹھے تھے ، جب سوکر اٹھے اس کے بعد کافی دیر تک بستر پر لیٹے رہے، 3 بجے کے بعد وہ بستر سے اٹھے اور نہانے چلے گئے اور میں ان کے لیے کھانا بنانے چلی گئی، جب وہ تیار ہوئے تو انہوں نے کھانا کھایا، میں ان کے سامنے بیٹھی تھی اور ہمارا بیٹا بھی پاس بیٹھا تھا، ہم اپنے بیٹے سے باتیں کررہے تھے، میرے شوہر نے پوچھا کہ تم اس کو پڑھاتی ہو؟ میں نے کہا جی! میں اس کو روز پڑھاتی ہوں، بس کل نہیں پڑھایا تھا، اس طرح کی باتیں ہورہی تھیں، پھر کھانا ختم ہوا، 5 منٹ بیٹھے، میں برتن رکھنے چلی گئی، میں مطمئن تھی کہ آج میرے شوہر کا موڈ اچھا ہے، کمرے میں میرے شوہر شیشے کے پاس کھڑے تھے، میں بھی پاس کھڑی تھی، مجھ سے انہوں نے لفافہ مانگا، میں نےپوچھا کہ کیا ڈالنا ہے؟ اسی حساب سے  لفافہ دیتی ہوں، بولے کہ اچھا سا کوئی لفافہ دے دو، کپڑے ڈالنے ہیں، میں نے کہہ دیا کہ آپ جارہے ہیں، میں بھی آجاؤں گی، بس میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ میرے شوہر کو غصہ آگیا، ہاتھ میں کنگھی تھی وہ زور سے دور ماری اور کہا کہ میں پہلے بھی تو جاتا ہوں، میں نے کہا کہ اچھا بیگ دے دیتی ہوں اور یہ کہہ کر میں تھوڑا پیچھے ہوگئی۔ میں نے کہا کہ میں نے صرف یہ ہی کہا ہے کہ میں بھی آجاؤں گی، تو انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ میری نظروں سے دور ہوجاؤ، میں کمرے سے باہر آنے لگی، جب دروازے تک آئی اور ابھی قدم باہر نہیں نکالا تھا، میرا چہرہ باہر کی طرف تھا، تب شوہر نے پیچھے سے سرپر بہت زور سے تھپڑ کی طرح مارا جیسے زور سے پکڑتے ہیں، مجھے اس وقت لگا جیسے کہ یہ کوئی چیز ہے جو ان کے اندر ہے کیونکہ وہ ایسے کبھی بھی نہیں تھے، میں ڈر گئی اور میرا پیشاب بھی نکل گیا، میں نے پلٹ کر دیکھاتو انہوں نے کہا کہ ’’جاؤ، تمہیں طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ اس وقت میں حواس باختہ تھی۔‘‘

شوہر کی بھابی کا بیان:

’’میں صحن میں بیٹھی بچوں کو پڑھا رہی تھی، حسنین کمرے میں تیار ہورہا تھا، مجھے حسنین کی اپنی بیوی کے ساتھ بولنے کی آواز آئی کہ پہلے تم میرے ساتھ لاہور جاتی ہو، میں تو ایک دو دن کےلیے لاہورجارہا ہوں، تم نے میرا دماغ خراب کردیا ہے، کمرے سے باہر نکل جاؤ، میرے سامنے سے چلی جاؤ، تو طیبہ کمرے سے باہر نکل رہی تھی کہ حسنین نے اس کے سر پر تھپڑ مارا اور کہا کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا، تو آگے سے طیبہ نے کہا کہ میں نے تو یہ ہی کہا ہے کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گی، تو حسنین نے طلاق طلاق طلاق کہنا شروع کردیا اور اپنے بیڈ پر گر گیا اور زار وقطار رونے لگا۔  میں نے کہا کہ حسنین! تمہیں یہ کیا ہوگیا؟ تو وہ روتا ہوا بولا کہ میں نے اس کو اتنی بار کہا ہے کہ مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کرو اور وہ بیڈ پر گر کر زور زور سے رونے لگا اور روتا ہی رہا، پھر میرے خاوند نے کہا کہ جاؤ ، اس کو کہو کہ وہ جہاں جارہا تھا جائے، میں نے جا کر کہا تو حسنین نے کہا کہ میں پتہ نہیں کن پریشانیوں میں ہوں لیکن اس کو اتنی دفعہ کہا کہ مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کرو، پھر میرے خاوند جو باہر بیٹھے تھے وہ بولے کہ بولنے دو اس کو،تم اپنی بیوی سے ڈرتے ہو؟ تم اپنی مرضی کرو۔ وہ پھر رونے لگ گیا پھر میں نے کہا کہ تم چلے جاؤ تو اس نے کہا کہ وہ جو چاہتی تھی میں نے وہ کردیا ، اب اس کو سکون آگیا ہے، اور کچھ دیر بعد وہ اپنا بیگ پکڑ کر باہر نکل گیا۔‘‘

مفتی صاحب! مذکورہ بیانات کی روشنی میں طلاق کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے اگرچہ غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن یہ غصہ کی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ اس سے کوئی خلافِ عادت قول یا فعل سر زد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا شوہر کے تین دفعہ ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کہنے سے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی کوئی گنجائش ہے۔

نیز طلاق کے الفاط میں اگرچہ بظاہر بیوی کی طرف اضافت نہیں پائی جارہی لیکن معنیً  اضافت پائی جارہی ہے کیونکہ عام طور پر طلاق کا لفظ بیوی کو ہی بولا جاتا ہے اور سوال میں سیاق وسباق سے بھی یہی معلوم ہورہا ہے کہ شوہر نے طلاق کے الفاظ بیوی کو ہی بولے ہیں۔

در مختار مع رد المحتار(439/4) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه …….. إلى أن قال الشامي……. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

در مختار مع رد المحتار(509/4) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

رد المحتار (4/444) میں ہے:

ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ ………….. ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه

فتاویٰ محمودیہ (12/465) میں ہے:

’’سوال : زید وعمر سالے بہنوئی ہیں، دونوں کے درمیان خانگی معاملہ میں جھگڑا ہوتا رہا، زید کو بے حد غصہ آگیا جو جنون کی حد سے گذر گیا، یہاں تک کہ اچھے برے کی تمیز باقی نہ رہی اور زید نے کہا، تو پھر اچھا طلاق طلاق طلاق، زید نے نہ اپنی بیوی کو مخاطب کیا نہ بیوی کا نام لے کر کہا اور نہ ’’دیا‘‘ کالفظ کہا نہ ’’دی‘‘ کا لفظ کہا، پس ’’طلاق‘‘ تین بار کہا، زید کی بیوی عمر کی دور کے رشتہ کی بھانجی ہوتی ہے، مطلع فرمائیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلیاً: یہ صحیح ہے کہ شوہر نے نہ بیوی کو مخاطب کیا نہ بیوی کا نام لے کر کہا اور نہ دیا کا لفظ کہا نہ دی کا لفظ کہا، بس ’’طلاق‘‘ تین مرتبہ کہا ہے، لیکن طلاق اپنی بیوی ہی کو دی جاتی ہے، کسی غیر کو نہیں اور یہاں تو بیوی کا تذکرہ بھی ہے اور اس کی برائی سن کر اس سے متأثر ہوکر طلاق دی ہے، طلاق کیلئے نہ ’’دیا‘‘ کی ضرورت نہ ’’دی‘‘ کی، نہ بیوی کو خطاب کی، نہ اس کا نام لینے کی، بغیر ان سب باتوں کے بھی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، اوردیتا ہے، اور طلاق واقع ہوجاتی ہے اور تین مرتبہ کہنے سے طلاق ِ مغلظہ ہوجاتی ہے، اب بغیر حلالہ کے اس کو رکھنا درست نہیں، اس کو چاہئے کہ عدت گذار کر دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے، خانگی جھگڑے میں غصہ آہی جاتا ہے، اوربحالتِ غصہ ناشائستہ الفاظ بھی زبان سے نکل جاتے ہیں، بڑوں کا احترام بھی ختم ہوجاتا ہے، چھوٹوں پرشفقت بھی باقی نہیں رہتی، کسی پر دست درازی کی بھی نوبت آجاتی ہے، اِن چیزوں کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کو جنون ہوگیا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔حررہٗ العبد: محمود عفی عنہ دارالعلوم دیوبند ۱؍۹؍۱۳۸۵ھ؁‘‘

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved