• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا مجبوری میں طلاق ناموں پر دستخط کرنے کا حکم

استفتاء

میرے شوہر نے تقریباً چار سال پہلے ہم سے چوری دوسری شادی کی، جس خاتون سے شادی کی وہ ٹریفک وارڈن ہے اور غنڈہ صفت عورت ہے۔ اخبار میں خبر آنے سے پتہ چلا کہ ان کی شادی ہوئی ہے۔ میرا شوہر نیک صالح انسان ہے، اس عورت کے خود کو پیش کرنے پر مجبور ہوگئے اور اس سے ہم سے چوری نکاح کرلیا اور نکاح نامہ پر پہلی شادی اور بچوں کا ذکر نہیں کیا، ہمارا جوان بچیوں کا ساتھ ہے، بچیوں کی شادی کرنی ہے، ایسی عورت کے ساتھ کی وجہ سے ہم مجبور ہوکر اسے طلاق دینے کا مطالبہ کررہے ہیں، ہم نے طلاقناموں پر ایسی کسی بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس کا کردار کیسا ہے، میرے شوہر شریف النفس انسان ہیں، اس سے ڈر بھی رہے ہیں اور ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ مجھے اس کے ساتھ چلنے دو، ہم نے تنگ آکر کہا کہ یا تو اس کو چن لیں یا ہمیں، انہوں نے فیصلہ دیا کہ میں اس کو چھوڑتا ہوں، پھر ہم نے پیپرز نکلوائے اور کہا کہ پھر دستخط کرکے معاملہ ختم کریں تو انہوں نے طلاقنامے پڑھ کر دستخط کردیئے۔

تو کیا ان طلاقناموں کی رو سے (جن کی کاپی ساتھ لف ہے) طلاق ہوگئی ہے؟ اگر طلاق ہوگئی ہے تو عدت کب سے شروع ہوگی؟

وضاحت مطلوب ہے: شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں؟

جواب وضاحت: 0300******

نوٹ: شوہر سے دارالافتاء کے نمبر سے رابطہ کیا گیا تو شوہر نے مندرجہ ذیل بیان دیا ہے۔(رابطہ کنندہ: صہیب ظفر)

شوہر کا بیان: یہ میری دوسری بیوی کا مسئلہ ہے۔ میری دوسری شادی کی وجہ سے گھر میں ہرروز لڑائی ہوتی تھی حالانکہ میں نے دوسری بیوی کو علیحدہ گھر میں رکھا ہوا ہے اور دونوں بیویوں کی خرچے پورے کررہا ہوں حقوق میں بالکل کمی نہیں کررہا، پہلی بیوی سے میری تین بچیاں ہیں اور دوسری بیوی سے ایک بچہ ہے، میری پہلی بیوی اور بچیوں نے مجھے بہت مجبور کیا کہ میں دوسری بیوی کو طلاق دوں، میری پہلی بیوی اور اس کے بھائیوں نے یہ تینوں طلاقنامے بنوائے اور میرے سامنے رکھ دئیے، میری دو بچیاں ملک سے باہر پڑھنے کے لئے گئی ہوئی ہیں انہوں نے مجھے فون پر مجبور کیا کہ طلاقنامے پر دستخط کرو ورنہ ہم آپ کو چھوڑ دیں گی اور تیسری بیٹی نے بھی مجھے کہا کہ اس پر دستخط کریں ورنہ میں آپ کو چھوڑ کر اپنی والدہ کے ساتھ چلی جاؤں گی، میری پہلی بیوی نے بھی کہا کہ میں اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤں گی اور آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی، غرض میری پہلی بیوی اور بیٹیوں نے مجھے مجبور کیا کہ یا ہمیں منتخب کریں یا اسے (دوسری بیوی کو) منتخب کریں۔ ان حالات میں ، میں نے مجبور ہو کر طلاقناموں کو پڑھ کر دستخط تو کردئیے لیکن زبان سے کچھ نہیں کہا تھا اور میری طلاق دینے کی بالکل نیت نہیں تھی، میں اس پر حلف دینے کو تیار ہوں۔

پہلے طلاقنامے کی عبارت:

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من مقر اپنے پورے ہوش وحواس میں اپنی بیوی مسماۃ ****کو طلاق اول دیتا ہوں.”

دوسرے طلاقنامے کی عبارت:

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من مقر اپنے پورے ہوش وحواس میں اپنی بیوی مسماۃ **** کو طلاق دوئم دیتا ہوں.”

تیسرے طلاقنامے کی عبارت:

"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من مقر اپنے پورے ہوش وحواس میں اپنی بیوی کو طلاق سوئم دیکر اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتا ہوں اور اپنے نفس پر ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیتا ہوں۔”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تحریری طلاق پر اگر دباؤ میں آکر دستخط کیے جائیں تو وہ طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر واقعتاً شوہر کو یہ غالب گمان تھا کہ اگر وہ طلاقناموں پر دستخط نہ کرے گا تو اس کی بیٹیاں اسے چھوڑ دیں گی اور اس کی بیوی اپنے آپ کو کچھ نقصان پہنچالے گی تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر مذکورہ باتوں کا غالب گمان نہ تھا تو ان طلاقناموں پر دستخط کرنے کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے اور رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ طلاق واقع ہونے کی صورت میں  بیوی کی عدت کی ابتداء اسی تاریخ سے ہوگی جس تاریخ کو شوہر نے پہلے طلاقنامے پر دستخط کیے تھے۔

نوٹ: مذکورہ صورت میں شوہر کا مؤقف یہ ہے کہ اس نے دباؤ میں (مجبور ہو کر) دستخط کیے تھے، اب حقیقت میں دباؤ تھا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ مفتی نہیں کر سکتا، اس کا فیصلہ خود شوہر نے کرنا ہے۔

توجیہ: اکراہ کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ وہ موجبِ غم ہو اور موجبِ غم امر اشخاص کے مختلف ہونے سے مختلف ہوسکتا ہے، ہمارے معاشرے میں بیوی بچوں کا جدائی اختیار کرلینا یا بیوی کا اپنے آپ کو نقصان پہنچانا یا اس کی دھمکی دینا غم کا باعث بنتا ہے، لہذا اگر شوہر کو بیوی، بچوں کے جدائی اختیار کرنے یا بیوی کے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کا غالب گمان تھا تو اکراہ کا ادنی درجہ ثابت ہوگا اور طلاق واقع نہ ہوگی۔

درمختار(9/253) میں ہے:

الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شىء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا الى الفعل الذى طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجىء بتلف نفس أو عضو أوضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجىء.  (وشرطه) أربعة امور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثانى (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أى إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجاء (و) الثالث (كون الشىء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه، وهو يختلف بإختلاف الأشخاص، فإن الأشراف يغمون لكلام خشن، والأراذل ربما لايغمون إلا بالضرب المبرح، إبن كمال. (و) الرابع (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص ( آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع)

تبیین الحقائق (218/6)میں ہے:

ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا أى مصدرا بالعنوان وهو أن يكتب في صدره من فلان الى فلان على ما جرت به العادة في تيسير الكتاب فيكون هذا كالنطق

بدائع الصنائع(295/3)میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلى هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عزوجل{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة………..الخ

درمختارمع حاشیۃ الطحطاوی(222/2)میں ہے:

(ومبدأ العدة الطلاق و) بعد (الموت) على الفور (وتنقضى العدة وإن جهلت)

(قوله: ومبدأ العدة الطلاق الخ) لانه بعد الطلاق والموت يتم السبب فيستعقبها من غير فصل، فيكون مبدأ العدة من غير فصل بالضرورة كمال.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved