• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا تین طلاق سے انکار اور کنایہ کا اقرار

استفتاء

شوہر کا بیان

*** ولد*** ۔۔۔ میں*** ولد *** پورے ہوش و حواس میں کسی کے دباؤ کے بغیر یہ تحریر لکھوا رہا ہوں۔

**** کا اپنی بیوی **** سے جھگڑا کی وجہ میرا بیٹا **** ہے جو کہ محلہ پڑوس سے لوگوں سے رقم ادھار لیتا رہتا تھا۔ **** نے اپنی زوجہ **** سے اس بارے میں بات چیت کی اور شکایت کی کہ ہمارا بیٹا محمد ع**** گھر سے  باہر لوگوں سے رقم ادھار لیتا رہتا ہے مجھے لوگ بہت زیادہ شکایتیں کر رہے ہیں۔ میں نے اپنی زوجہ سے کہا دیکھو میں جو کچھ بھی کما رہا ہوں وہ سب تمہارے لیے اور ان بچوں کے لیے کر رہا ہوں۔ **** کی دکان کے برابر میں کوئی گلو مستانی نامی کوئی شخص ہے۔ **** نے اسے 500 یا 1000 روپے ادھار لیے ہیں اور جو کہ میں نے گلو لوٹا دیے۔ اس بات پر میں نے گھر **** سے پوچھا تم نے گلو سے پانچ سو یا ہزار روپے لیے ہیں۔ **** نے کہا ابو میں نے کوئی پیسے نہیں لیے ہیں۔ اس بات کی بنا پر میں نے **** کو دو تین تھپڑ مارے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ **** نے **** سے کہا کہ میں نہ جانے کس طرح سے لوگوں سے پیسے ادھار لے کر آتا ہوں دوکان کا کاؤنٹر بنانے کے لیے اور **** پیسے عیاشی میں ضائع ختم کر رہا ہے۔ اس بات پر ہمارا جھگڑا طول پکڑ گیا۔ **** نے **** کی حمایت میں کہا کہ بچے کو جان سے مار دو گے۔ **** شراب کے نشہ میں تھا۔ اور اس حالت میں اس نے **** سے کہا کہ تم **** کی حمایت سے باز نہ آئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور **** نے **** کو دو تین تھپڑ مارے اور کہا ’’ جا تو میری طرف سے فارغ  ‘‘۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد امام صاحب نے کہا کہ **** تم ابھی آٹھ یا دس دن یہاں پر قیام کرو تو ہم ان کو سمجھاتے ہیں اور سمجھا کر تمہارے ساتھ واپس روانہ کر دیتے ہیں۔ **** کے بچوں کی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں۔ **** ایک دن کے بعد انڈیا واپس چلا گیا۔ اس کے بعد **** کے بچے انڈیا سے اپنی ماں سے بات چیت فون پر کرتے رہے۔ اور **** نے اپنے بیٹے کو پاکستان بلا لیا۔ اور بیٹا **** نے اپنے والد **** اور بہن کو پاکستان بلا لیا کہ امی انڈیا جانےکے لیے تیار ہیں آپ پاکستان آجاؤ۔ اب **** نے اپنے بیٹے سے یہ شرط رکھی ہے کہ میں تمہارے ساتھ انڈیا جانے کے لیے تیار ہوں لیکن تمہارا باپ **** ساتھ نہیں رہے گا۔ کیونکہ **** کے نزدیک یہ کہتی ہے کہ مجھے طلاق ہوگئی ہے۔ **** کا کہنا ہے کہ **** نے نہ کوئی عدت بھری اور **** کے ساتھ پانچ چھ ماہ میاں بیوی والی زندگی گذارتی رہی۔ میں **** آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ شرعی طور پر **** **** کے ساتھ رہ سکتی ہے یا نہیں ؟ مجھے شرعی فتوی دیں۔ ( ****)

بیوی کا بیان

میں **** ولد م***پورے ہوش و حواس میں اس بات کو تحریر کر رہی ہوں اور مجھ پر کسی بہن یا بھائی کا کوئی دباؤ نہیں۔ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ میری شادی **** ولد***۔۔۔ ہوئی۔ میں پاکستان سے شادی شدہ ہوکر انڈیا گئی۔ میری شادی کو عرصہ اکیس سال ہوگئے ہیں اور میرے دو بچے ہیں۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی، لڑکا بیس سال کا ہے اور بیٹی چودہ سال کی ہے۔ **** سے انڈیا میں کسی آدمی سے سود پر رقم وصول کی۔ اس رقم کا سود برابر زیادہ ہو رہی تھی۔ عمو چاچا ہندو سے رقم لی تھی اور وہ برابر گھر پر آکر رقم مانگ رہا تھا۔ **** چاچا عمو سے کہا کہ یہ رقم میری بیوی ادا کرے گی بذریعہ کمیٹی ڈال کر چاچا عمو سے **** نے بات کروائی کہ **** کمیٹی ڈال رہی ہے اس پر **** نے کہا کہ میری کمیٹی جنوری میں شروع ہوگی، ممبر جمع نہیں ہوئے تو ہوسکتا ہے کہ میں کمیٹی نہ ڈالوں اس پر بات ختم ہوگئی۔ رات **** گھر آیا شراب کے نشے میں۔ میں اور میری بیٹی اور **** دسترخوان پر کھانا کھا رہے تھے۔ اس وقت میں نے **** سے کہا کہ تم اپنے لینے دینے کے معاملات باہر رکھا کرو۔ مجھ سے کسی آدمی سے بات نہ کروایا کرو۔ یہ سن کر **** اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا۔ اور مجھے گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ اروں کی بیویاں اپنے آدمیوں کو پتا نہیں کہاں کہاں سے پیسے لاکر دیتی ہیں۔ میں نے کہا میں ایسی عورت نہیں ہوں جو غلط کاری کر کے اپنے شوہر کو پیسہ لا کر دوں۔ اس پر **** نے کہا کہ اگر میرے پاس 5000 روپے ہوئے تو میں تجھے لگا کرکے نکالتا۔ پھر کہا’’ کہ میں اس بات کا بھی کیوں انتظار کروں جا میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی ‘‘ چار پانچ مرتبہ کہا اور مجھے مار کر گھر سے باہر نکالا۔ پھر میں اپنے ماموں کے گھر چلی گئی۔ اور وہاں تقریباً آٹھ دن قیام کیا۔ آٹھ دن **** لینے ماموں کے گھر آیا **** کے سامنے قران پاک کی جھوٹی قسم اٹھائی کہ میں نے اسے نہیں چھوڑا یعنی طلاق نہیں دی۔

بیٹی (***) کا بیان

میں ***ولد **** ہوں۔ میرے والد صاحب اور والدہ کا جھگڑا اس بات پر ہوا تھا کہ پاپا نے ادھار رقم لی تھی پھر گھر واپس آنے کے بعد ماما اور پاپا کا جھگڑا ہوا جو کہ اتنا طول پکڑگیا کہ جس میں پاپا نے ماما کو غصہ میں مار کر کئی بار اس طرح کہا کہ ’’ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی ‘‘ اور یہ بات حلفاً کہہ رہی ہوں۔ اور میں یہ بات اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر بلا کسی کے بیکاوے میں آئے کہہ رہی ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ عورت نے خود شوہر کے منہ سے تین طلاق کے الفاظ سنے ہیں اور بیٹی کے بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے اس لیے عورت اپنے حق میں تین طلاق ہی شمار کرے۔ شوہر کے بیان میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ ’’ اب تو میری طرف سے فارغ ہے ‘‘ یہ الفاظ کنایہ طلاق ( کی قسم ثالث) کے ہیں جن میں حالت مذاکرہ اور غضب میں بلا نیت ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔ اور عورت کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر راضی نہ ہو تو سابق شوہر اس سے زبردستی نکاح نہیں کرسکتا۔

غرض عورت کی بات لیں تو وہ تین طلاقیں سمجھے اور شوہر کی بات کو لیں تو ایک طلاق بائن ہوئی۔ دونوں ہی صورتوں میں نکاح ٹوٹ چکا ہے۔

المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. (شامی: 4/ 449)

و ما لا يصدق فيه المرء عند القاضی لا يفتى فيه و لا يقضى فيه. ( عمدة ارباب الفتویٰ بحوالہ امداد الاحکام: 2/ 561)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved