• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کا یہ کہنا کہ "اب اگر میں یا میری بیوی اس زیور کو دوبارہ لیں تو میری بیوی مجھ پر تین طلاق ” پھر زیور کی قیمت لینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کا اپنی والدہ سے جھگڑا ہوا تو اس شخص نے اپنی بیوی کا زیور لے کر والدہ کی طرف پھینک دیا اور کہا کہ "اب اگر میں یا میری بیوی اس زیور کو دوبارہ لیں تو میری بیوی مجھ پر تین طلاق ” جب  کہ اس  زیور میں پچاس ہزار روپے اس شخص کے ذاتی ہیں اور باقی رقم اس کی والدہ کی ہے اب اگراس زیور کو فروخت کرکے ان کے حصے کے بقدر زیور کی قیمت ان کو دے دی جائے اور باقی پچاس ہزار ان کا بیٹا لے لے تو کیا اس صورت میں اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی؟ان کو دینا جائز ہیں یا نہیں؟ اور جو پچاس ہزار اس شخص کا ذاتی تھا وہ اس کو لے سکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زیور بیچ کر والدہ کوان کے حصے کے بقدر پیسے دینے اور اپنےحصہ کے بقدر پیسے یعنی پچاس ہزار روپے لینے سےمذکورہ شخص کی بیوی پر تین  طلاقیں  واقع  ہوجائیں گی۔تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی والدہ زیور بیچ کر اپنا حصہ رکھ لے اور باقی پچاس ہزار روپے اپنے بیٹے کو نہ دے بلکہ کسی تیسرے بندے کو ہدیہ کردے پھر تیسرا بندہ پچاس ہزار روپے اس عورت کے بیٹے کو ہدیہ کردے۔

توجیہ:کسی چیز کا عوض وصول کرنا اسی چیز کو لینے کے حکم میں ہوتا ہےلہذا زیور کی قیمت لینا بھی زیور وصول کرنے کے حکم میں ہوگا  ۔

بدائع الصنائع(120/3)میں ہے:

إذا حلف الرجل ليأخذن من فلان حقه أو ليقبضن من فلان حقه فأخذ منه بنفسه أو أخذ منه وكيله أو أخذه من ضامن عنه أو محتال عليه بأمر المطلوب بر لأن حقوق القضاء لا ترجع إلى الفاعل فترجع إلى الآمر فكأن قبض وكيل الطالب قبضه معنی……….ولو أخذ به ثوبا أو عرضا فقبض العرض فهو بمنزلة القبض للمال لأنه يصير مستوفيا بأخذ العوض كما يصير مستوفيا بأخذ نفس الحق

فتاوی الولوالجیہ(39/2)میں ہے:

 رجل له على آخر دراهم ثمن شيئ ، فقال ان اخذت ثمن ذلك الشيئ فامرأته طالق ، فاخذ مكان الثمن حنطة وقع الطلاق على امراته لان هذا عوض الثمن فكان اخذ الثمن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved