• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے مار پیٹ کرنے کی بنیاد پر نکاح فسخ کروانے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب  میرا نکاح ہوا تھا میں اس نکاح کے لئے بالکل راضی نہیں تھی، نکاح سے دو تین دن پہلے مجھ پر بہت تشدد کیا گیا، مجھ پر کچھ غلط الزامات بھی لگائے گئے، جس دن نکاح تھا مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ میرا نکاح ہے۔ اُس سے پہلے بھی کبھی مجھے اطلاع  نہیں تھی کہ میرا نکاح ہے کیونکہ میں ابھی میٹرک کے امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی۔ جس دن نکاح تھا اُس دن شام کے وقت کچھ لوگ آئے، میرے چاچوبھی ان کے ساتھ تھے وہ میرے پاس آئے اور بہت کچھ بولا ، میں پریشان تھی، تب انہوں نے بتایا کہ آپ کا نکاح ہے تو میں رونے لگ گئی، اتنا روئی کہ حالت عجیب ہوگئی۔ پھر مجھے کمرے سے باہر بلا کر  دم کیا ہوا پانی پلایا  ، اُس کے بعد  لڑکے کا والد اور کچھ لوگ اور آگئے، ان کے پاس بہت بڑی پستول بھی تھی جو کہ میرے سامنے لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس کے بعد انہوں نے کہا آپ کا نکاح ہو گیا ہے، لیکن میں نے اس نکاح کو قبول نہیں کیا، میں بس روئے جا رہی تھی بہت خوفزدہ بھی تھی۔ میرے گھر والے کہتے ہیں کہ بس تم اب رشتہ نبھاؤ۔ میں نے اُس نکاح کو دل سے  بالکل قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن دستخط کردیے تھے۔

قبول نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی، کہ  مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کس سے میرا نکاح ہو رہا ہے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ میری والدہ کے سسرال میں سے تھے،  میں ایک سال کی تھی جب میرے والد نے میری والدہ سے علیحدگی کر لی اور ہم سے تعلق ختم کر دیا، ہم نے کبھی اپنے والد کے رشتہ داروں سے ملاقات نہیں کی، اور جس لڑکے سے نکاح ہوا وہ چرس بیچتا تھا اور اس کا والد یعنی میرا سسر  اشتہاری مجرم تھا۔ اُن لوگوں نے مجھ پر بہت تشدد بھی کیا ہوا ہے، مگر میں ایک ہی بات کہتی تھی میرا کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے، یہ بات میرے گھر والے میری والدہ اور پورے خاندان کو معلوم تھی کہ میں اُس نکاح سے خوش نہیں تھی، میں نے ہمیشہ اس زبردستی کے رشتے کو ختم کرنا چاہا لیکن میرا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا 2014 میں، میں نے عدالت میں خلع کا کیس کر دیا تب بھی کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے میں اپنے شوہر سے کہتی تھی کہ مجھے طلاق دے دو میں زبردستی کے رشتے کو نہیں مانتی نہ آپ مجھے پسند ہو، وہ  پہلے نہیں مانتا تھا، بہت دفعہ اس نے مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا، جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں،  وہ اور اس کا اشتہاری باپ   ٹارچر بھی کرتا تھا،  ایک  دفعہ مجھے چھری بھی ماری  مگر میری ضد یہی  تھی کہ میں اس رشتے کو نہیں مانتی پھر ایک مرتبہ اس لڑکے نے کہا ’’ٹھیک ہے، میں طلاق  دیتا ہوں‘‘ پھر کہنے لگا مگر میری ایک شرط ہے مجھے کچھ لکھ کر دو اور اس کے بعد مکر گیا۔ یہ الفاظ

کتنی مرتبہ کہے اور کیا الفاظ کہے مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔بالآخر میں نے خلع کا کیس دائر کر دیا اور جب خلع کی ڈگری یونین کونسل میں آئی تو وہ لڑکے  کے گھر گئے تب میری والدہ نے میرا ساتھ دیا تھا، وہ ان کے ساتھ ان کے گھر گئی،  اس لڑکے کے بڑے بھائی نے یونین کونسل والوں کو دستخط کر دیے، یونین کونسل والے تین ماہ تک لڑکے کے گھر نوٹس بھیجتے رہے لیکن وہ نہیں آیا،  اس کے گھر سے کوئی اور بھی نہیں آیا پھر یونین کونسل والوں نے تین ماہ بعد خلع کا سرٹیفیکٹ مجھے دے دیا۔اس کے بعد ہمارا ان لوگوں سے  کوئی رابطہ نہیں ہوا نہ وہ لوگ آئے۔ 2020 کے شروع میں دوسری جگہ میری شادی ہو گئی، اب شادی کو ایک سال ہو گیا ہے مگر دو تین دن پہلے عدالتی خلع کے بارے میں بیان سنا تو ہم بہت پریشان ہو گئے ۔ میرے خلع لینے کے بعد اُس لڑکے نے بھی دوسری شادی کر لی اور اُس کے بچے بھی ہیں۔ خلع کے بعد اُن لوگوں کا ہم سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، ایک مرتبہ وہ شراب پی کر ہمارے گیٹ کے سامنے آکر تماشہ کرنے لگ گیا ہم گھر نہیں تھے، محلے والوں نے اُس کے باپ کو اطلاع کی اور وہ لوگ اُسے لے گئے۔  راہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ صورت میں خلع درست ہو گیا تھا؟ اور نکاح ختم ہو گیا تھا یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ شوہربیوی پر تشدد کرتا تھا اور بیوی نے شوہر کے جسمانی تشدد اور سخت مار پیٹ کرنے کی بنیاد پر  تنسیخ نکاح کی درخواست دی تھی اور عدالت نے شوہر کے بیوی پر تشدد کرنے کی بنیاد پر بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر دی تھی،  لہذا عدالت کے فیصلے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی تھی جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا تھا۔ اور مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اختیار کیا ہے اور یکطرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذکورہ صورت میں فسخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا بیوی پر جسمانی تشدد اور سخت مار پیٹ  کرنا پایا جا رہا ہے لہذا عدالتی خلع شرعا مؤثر ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل (5/228)میں ہے:

(ولها  التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها…..

 (قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة وتكون بائنة كما في عبق 

حیلہ ناجزہ (140) میں ہے:

’’ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الا طلاق المولى و المعسر و سواء اوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به‘‘.انتهى.

فتاوی عثمانی(2/462) میں ہے:

یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو ۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved