• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے طلاق نامہ بھیجنے کے بعدبیوی نے عدالت سے خلع کی ڈگری حاصل کر لی،کیا نکاح ختم ہو گیا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے دین درج ذیل مسئلہ میں کہ سائل نے اپنی بیٹی **کا عقد نکاح **سے کر دیا تھا لیکن شومئی قسمت کہ گھر میں ناچاقی کا عالم تھا،**مسلسل بیوی کو اذیتیں دیتا رہا،متعدد بار مارپیٹ کر کے گھر سے نکالا،پھر صلح ہوجاتی ،اس دوران دونوں کے ہاں تین بچوں کی پیدائش بھی ہوگئی، پھر مسمیٰ مذکور نے ایک طلاق کا نوٹس دے کر بیوی کو گھر سے نکال دیاتھا جس کے بارے میں آپ سے ہم نے سوال کیا تھااور طلاق نامہ کی کاپی بھی فراہم کی تھی اس کا فتویٰ نمبر 14/81ہےجس کی کاپی ساتھ لف ہے۔اس کے بعد بھی بیٹی کا گھر بسانے کے لئے احقر نے بہت کوشش کی لیکن** نہ بیوی کو رکھنے پر آمادہ ہوا اور نہ ہی اس دوران بیوی بچوں کو کچھ نان نفقہ دیا،یاد رہے کہ سائل کی بیٹی یعنی** کی بیوی پچھلے کئی سالوں سے بچوں سمیت سائل کے ہاں مقیم ہے،اب سائل نے دیکھا کہ **نہ تو بیوی کو آباد کرتا ہے اور نہ ہی طلاق دیتا ہے اور معلقہ بنائے ہوئے ہے تو فیملی کورٹ میں خلع کیلیے درخواست دے دی جس کے نوٹس اس کے پتے پر ہم بھیجتے رہے لیکن اطلاع پانے کے باوجود وہ کورٹ میں حاضر نہیں ہوابلکہ اس نے اپنے طور پربیٹی کےخلاف قانونی کاروائی شروع کر دی ،اب ہمیں کورٹ سے ڈگری بھی مل گئی ہے اور اس کو یونین کونسل میں جمع کروا کر طلاق  کاسرٹیفکیٹ بھی حاصل کر لیا ہے، مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں درج ذیل باتوں کی وضاحت مطلوب ہے:

1۔کیا لڑکی شرعاً آزاد ہے اور عقد ثانی کر سکتی ہے؟

2۔** بیوی بچوں کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہے یا نہیں؟

3۔ایسے ظالم شوہر کی اسلام میں کیا سزا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اگر مذکورہ بیان درست ہے تولڑکی شرعاً آزاد ہے اور عقد ثانی کر سکتی ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب بیوی نے عدالت سے فسخ نکاح کی ڈگری حاصل کی تو اس سے یہ نکاح ختم ہو گیا کیونکہ شوہر بیوی کو خرچہ نہیں دیتا تھا اور نہ بیوی نے خرچہ معاف کیا تھا اور بیوی نے اسی بنیاد پر عدالت میں مقدمہ دائر کروایا تھااور شوہر کو عدالت کی طرف سے بھیجے گئےنوٹس بھی ملتے رہےاور وہ نوٹس ملنے کے با وجود عدالت میں حاضر نہیں ہوا،لہذا عدالت کا شوہر کے خلاف فیصلہ درست ہو گیا اور ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی پھر چونکہ شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہیں کیالہذاعدت گزرنے سے رجعی طلاق بائنہ بن گئی جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا کیونکہ خرچہ نہ دینے کی بنیاد پر نکاح فسخ کروانا فقہائے مالکیہ کے نزدیک درست ہے لہذا اب عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

2۔عدت  گزرنے کے بعد بیوی کا نان نفقہ خاوند کے ذمے نہیں البتہ بچوں میں سے بیٹے کا نفقہ بالغ ہونے تک اور بیٹی کا شادی ہونے تک اس کے ذمے ہے۔

3۔بلا وجہ بیوی کو مارنا گناہ کی بات ہےالبتہ دنیا میں اس کی کوئی خاص سزا مقرر نہیں۔

فتاویٰ ہندیہ(2/191)میں ہے:’’واما حكمه فوقوع الفرقة بانقضاءالعدة في الرجعي‘‘فتاویٰ تاتار خانیہ(5/391)میں ہے:’’أجمع العلماء علی أن المطلقة طلاقًا رجعیًا تستحق النفقة والسکنیٰ أیضا مادامت العدة قائمة سواء کانت حاملا أو حائلا‘‘در مختار مع ردالمحتار(5/345)میں ہے:’’(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله)… (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاقال ابن عابدین: (قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم(قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة‘‘حیلہ ناجزہ (ص:72 طبع دارالاشاعت) میں ہے:زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے) کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کر لے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔۔۔۔ اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو الخ "

تنبیہ: خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو یا اس کے عزیز و اقارب اس کا نفقہ برداشت کرنے پر تیار ہوں مالکیہ کے نزدیک یہ شرط نہیں، "حیلہ ناجزہ” میں اس شرط کے لگانے اور مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے۔

چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ (72) میں ہے:و هذا الحكم عندالمالكية لا يختص بخشية الزنا و إفلاس الزوجة لكن لم نأخذ مذهبهم على الإطلاق بل أخذناه حيث وجدت الضرورة المسوغة للخروج عن المذهب.

ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق لیا ہے کیونکہ اب عدالتیں اپنے فیصلوں میں اس شرط کو (یعنی عورت کے حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش کی قدرت یا عورت کے عزیز و اقارب کے نفقہ برداشت کرنے کو) ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے۔

فتاویٰ عثمانی(2/462)میں ہے:’’بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ درخواست برائے فسخ نکاح نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر دے ، اور جج اپنے فیصلے میں بھی اسی کو بنیاد بنائے،خلع کا طریقہ کار ہرگز اختیار نہ کرے،اس لئے کہ یکطرفہ خلع شرعاً کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو یعنی شوہر کا "تعنت”ثابت ہو رہا ہو البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے۔۔۔۔۔شوہر یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر نہ ہو ، جیسا کہ آج کل عموماً ایسا ہی ہے ، اور عدالت کے بار بار نوٹس اور سمن جاری کرنے اور شوہر نوٹس اور سمن کے بارے میں مطلع ہونے کے باوجود حاضر عدالت نہ ہوتا ہو ، تو اگر بیوی کے پاس گواہ موجود ہوں اور وہ پیش بھی کرے تو جج ان کی گواہی کی بنیاد پر بیوی کے حق میں فسخ نکاح کا فیصلہ جاری کرے ، اور اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں ، یا ہوں لیکن وہ پیش نہ کرے تو شوہر کا بار بار بلانے کے باوجود عدالت میں حاضر نہ ہونا اس کی طرف سے قسم سے انکار (نکول) سمجھا جائے گا ، اور اس انکار کی بنیاد پر عدالت شوہر غائب کے خلاف اور بیوی کے حق میں فسخ نکاح کا فیصلہ جاری کرلے گی۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved