• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے بیوی کو کہا کہ ’’اس شرط پر کہ تم لازمی بچہ ضائع کروگی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو طلاق کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری بیوی کو حمل تھا اور چار ماہ ہونے پر الٹرا ساؤنڈ کروایا جس میں بتایا گیا کہ بیٹی ہے، میں نے اہلیہ کو کہا کہ بچہ ضائع کردو، اہلیہ نہ مانی اور اس نے جان چھڑانے کے لیے کہا کہ اگر مجھے طلاق دیتے ہو تو حمل ضائع کردوں گی۔ اس بات پر میں نے کہہ دیا کہ ’’اگر تم حمل ضائع کروگی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا، اس شرط پر کہ تم لازمی بچہ ضائع کروگی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، اگر ضائع نہیں کرواؤگی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا‘‘ یہ جملہ کئی مرتبہ بولا۔

اب حمل کو ساتواں ماہ چل رہا ہے، اب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟

سعید خان:  ۔۔                                    بیوی کے دستخط

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب شوہر نے یہ کہا  کہ ’’ اس شرط پر کہ تم لازمی بچہ ضائع کروگی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو تینوں طلاقیں بچہ ضائع کرنے کی شرط پر معلق ہوگئیں لیکن چونکہ بیوی نے ابھی تک شرط کو پورا نہیں کیا یعنی بچہ ضائع نہیں کروایا اس لیے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بدائع الصنائع (3/239) میں ہے:

’’على‘‘ كلمة شرط يقال زرتك على أن تزورني أي بشرط أن تزورني وكذا قال لامرأته أنت طالق على أن تدخلي الدار كان دخول الدار شرطا كما لو قال إن دخلت الدار وهي كلمة إلزام أيضا

فتح القدیر (4/202) میں ہے:

والحق أن يقال إنها [كلمة على] حقيقة للاستعلاء إذا اتصلت بالأجسام المحسوسة كقمت على السطح والعتبة وجلست على الأرض والبساط ومسحت على رأسي وهو محمل إطلاق أهل العربية كونها للاستعلاء وفي غير ذلك هي حقيقة في معنى اللزوم الصادق في ضمن ما يجب فيه الشرط المحض نحو قوله {يبايعنك على أن لا يشركن بالله شيئا} أي بشرط ذلك ونحوه أنت طالق على أن تدخلي الدار

بدائع الصنائع (3/217) میں ہے:

وإن علق بشرط فاما إن قدم الشرط على الجزاء واما إن أخره عنه فإن قدمه بأن قال إن دخلت الدار فأنت طالق وطالق وطالق تعلق الكل بالشرط بالإجماع حتى لا يقع شيء قبل دخول الدار فإذا دخلت الدار قبل الدخول بها لا يقع إلا واحدة في قول أبي حنيفة وإن دخلت الدار بعد الدخول بها فيقع الثلاث بالإجماع

بدائع كی اس عبارت میں اگرچہ طلاق کا تکرار عطف کے ساتھ ہے اورسوال میں بغیر عطف کے ہے لیکن  ہمارے عرف میں ایسی صورت میں بھی عطف ہی مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ امداد الفتاویٰ جديد (5/233) میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’اردو کے محاورات میں عام اہل لسان اس صورت [اگر فلاں کام کرے تو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے] میں عطف ہی کا قصد کرتے ہیں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved