• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے کنائی الفاظ بولنے کے بعد تین طلاقیں دے دیں، کیا تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟ ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ کے ایک فتویٰ کی تصدیق

استفتاء

مفتی صاحب ہم نے ایک مسئلہ کے بارے میں ادارہ ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ ماڈل ٹاؤن لاہور سے فتویٰ کی صورت میں جواب لیا تھا۔ وہ سوال وجواب آپ کو ارسال کیے جارہے ہیں۔ کیا یہ جواب درست ہے؟

سوال بمع فتویٰ درج ذیل ہے:

سوال: میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو حاضر  جان کر لکھوا رہا ہوں کہ اس وقت جو مسئلہ پیش آیا سب سچ بتاؤں گا۔ یہ مسئلہ بننے کی اصل وجہ ساس اور بہو کی آپس میں لڑائی ہے۔ لڑکے نے اپنی بیوی کو اُس کے مائیکے بھیج دیا، پھر اس کے بعد پیر صاحب لڑکی کو دوبارہ گھر چھوڑ گئے، اُس کے بعد لڑکے کی امی اس کو اپنے گھر رکھنے پر مطمئن نہیں تھی جس کی وجہ سے لڑکے نے لڑکی کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک نہ رکھا اور لڑکی کو اپنے مائیکے جانے کا کہتا رہا جس کے بعد دونوں کی آپس میں لڑائی شروع ہوگئی، لڑکی نے مطالبہ کیا کہ پہلے اپنی بیٹی کو کمرے سے باہر نکالو پھر میں جاؤں گی، لڑکے نے اپنی بیٹی کو کمرے سے باہر رکھ دیا اس کے بعد بھی لڑکی نے کہا میں گھر نہیں جاؤں گی، اس کے بعد لڑکی کی بھابھی آئی اور اُس نے لڑائی ختم کرنے کا کہا اور جواب میں لڑکے نے کہا کہ ’’میں نے اس کو نہیں رکھنا‘‘ لڑکا یہی اسرار کرتا رہا جس کے بعد لڑکے نے شدید غصے میں آکر کہا  ’’میں اس کو طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، جس کے بعد لڑکی کی بھابھی لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔

یہ سب تنازع ہونے کے بعد لڑکا اور لڑکی اپنا گھر بسانا چاہتے ہیں اور وہ بھرپور کوشش میں ہیں، مہربانی فرما کر شریعت کے مطابق اس کا بہتر حل فرمایا جائے۔

جواب از دار الافتاء تحریک منہاج القرآن لاہور:

[جواب کی عبارت طویل ہے لہٰذا صرف سوال سے متعلق مقصودی عبارت جو اس فتوے کے آخر میں مذکور ہے، یہاں نقل کی جاتی ہے]

۔۔۔۔۔۔۔خلاصہ کلام یہ کہ الفاظِ کنایہ دو قسم کے ہیں: پہلی قسم ایسے الفاظ جن میں صرف طلاق کا معنی پایا جائے یا پھر کسی علاقہ میں وہ الفاظ صرف طلاق کے لیے ہی مستعمل ہوں مثلا:

1.اعتدي (عدت گزار لے)

  1. استبرئي (اپنا رحم خالی کرلے)
  2. انت واحدة (تو ایک ہے)

تو ان الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے اور اس کی عدت میں مزید طلاقیں بھی واقع ہوجاتی ہیں، جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی بیان کرتے ہیں:الصَّرِيحَ مَا غَلَبَ فِي الْعُرْفِ اسْتِعْمَالُهُ فِي الطَّلَاقِ بِحَيْثُ لَا يُسْتَعْمَلُ عُرْفًا إلَّا فِيهِ مِنْ أَيِّ لُغَةٍ كَانَتْصریح طلاق کے الفاظ وہ ہیں جو اکثر طلاق ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں عرف عام میں کسی زبان میں وہ کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوتے۔ابن عابدين شامي، رد المحتار، ۲۵۲:۳ بیروت، دار الفکر

اور دوسری قسم کے وہ الفاظ ہیں جن سے نیت یا دلالت حال کی بناء پر طلاق واقع ہونے سے عدت میں یا عدت کے بعد مزید طلاقیں واقع نہیں ہوتیں کیونکہ محل طلاق ہی باقی نہیں رہتا یعنی نکاح ہی ختم ہوجاتا ہے۔

صورتِ مسئلہ کے مطابق جب آپ نے لڑائی کی وجہ سے ’’مسماۃ نادیہ کو گھر سے چلی جانے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ میں نے اس کو نہیں رکھنا‘‘ تو اسی جملے سے آپ دونوں کے درمیان ایک طلاق بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوگیا تھا۔اس لیے بعد میں دی گئی تمام کنائی اور صریح طلاقیں فضول گئیں کیونکہ نکاح پہلے ہی ختم ہوگیا تھا یعنی اس وقت محل طلاق نہ ہونے کی وجہ سے وہ طلاقیں بے اثر رہیں۔ لہٰذا اب اگر آپ لوگ باہمی رضامندی سے بطور میاں بیوی رہنا چاہتے ہیں تو نئے حق مہر اور نئی شرائط کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رجوع کرسکتے ہیں یاد رہے دوبارہ نکاح کے بعد آپ کے پاس صرف دو بار طلاق کا حق باقی رہ جائے گا۔‘‘

وضاحت مطلوب ہے کہ:

1۔ شوہر نے بیوی کو میکے بھیجنے کے لیے کیا الفاظ استعمال کیے تھے؟ اور تین طلاقوں کا واقعہ کب ہوا تھا؟

2۔ شوہر نے بیوی کو میکے بھیجنے کے لیے جو جملے استعمال کیے یا شوہر کا جملہ کہ ’’میں نے اس کو نہیں رکھنا‘‘ کیا یہ سب جملے شوہر نے طلاق کی نیت سے کہے تھے؟

جوابِ وضاحت از شوہر:

1۔ وہ الفاظ یہ تھے کہ: ’’اپنی ماں کے گھر چلی جا‘‘ جس دن بیوی واپس آئی تھی اس سے اگلے دن یہ واقعہ ہوگیا تھا۔

2۔ میری طلاق کی نیت بالکل نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمیں مذکورہ جواب سے اتفاق نہیں۔ بلکہ ہماری تحقیق کے مطابق مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:کنایاتِ طلاق جس قسم سے بھی ہوں، ان سے دیانتا (یعنی شوہر کے حق میں) طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے اگرچہ دلالتِ حال پائی جارہی ہو۔ اور قضاءً (یعنی قاضی کے نزدیک یا بیوی کے حق میں) بعض کنایات سے طلاق واقع ہونے کے لیے دلالتِ حال کا پایا جانا کافی ہوتا ہے اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت نہ کی ہو(لأن المرأة كالقاضي)۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں جب شوہر نے اپنی بیوی کو یہ کہا کہ ’’اپنی ماں کے گھر چلی جا‘‘ یا ’’میں نے اس کو نہیں رکھنا‘‘تو چونکہ ان جملوں میں شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی اس لیے ان جملوں سے شوہر کے حق میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی اور نہ نکاح ختم ہوا تھا لہٰذا اس کے بعد شوہر نے جب  بیوی کو تین طلاقیں دیں تو چونکہ اس وقت شوہر کے حق میں نکاح قائم ہونے کی وجہ سے طلاق کا محل باقی تھا اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

۱۔ در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/516) میں ہے:باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضبقوله: (قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية ولو وجدت دلالة الحال، فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره

۲۔ البحر الرائق (3/519 باب الکنایات) میں ہے:قوله: (لا تطلق بها إلا بنية أو دلالة الحال) أي لا تطلق بالكنايات قضاء إلا بإحدى هذين لأنها غير موضوعة للطلاق بل موضوعة لما هو أعم منه ………. قيدنا بالقضاء لأنه لا يقع ديانة إلا بالنية ولا عبرة بدلالة الحال

۳۔ فتح القدیر (4/55) كنايات كی بحث میں ہے:والحاصل أن النية باطنة والحال ظاهرة في المراد فظهرت نيته بها فلا يصدق في إنكار مقتضاها بعد ظهوره في القضاء، وأما فيما بينه وبين الله تعالى فيصدقه الله سبحانه إذا نوى خلاف مقتضى ظاهر الحال. فقول المصنف لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة الحال يحمل على حكم القاضي بالوقوع، أما في نفس الأمر فلا يقع إلا بالنية مطلقا، ألا ترى أن أنت طالق إذا قال: أردت عن وثاق لا يصدقه وفيما بينه وبين الله هي زوجته إذا كان نواه

۴۔ در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/509) میں ہے:[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكلقوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

۵۔ بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

نیز اگر بالفرض شوہر نے کنائی الفاظ سے طلاق کی نیت کی بھی ہوتی اور کنائی الفاظ سے طلاق کا وقوع شوہر کے حق میں بھی مان لیا جاتا (جیسا کہ مذکورہ فتویٰ میں اسی کے مطابق جواب دیا گیا ہے) تو پھر بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتیں کیونکہ کنائی الفاظ سے واقع ہونے والی طلاق کے بعد عدت کے اندر صریح طلاق دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے اور مذکورہ صورت میں چونکہ کنائی الفاظ بولنے کے ایک دن بعد ہی شوہر نے تینوں طلاقیں دی تھیں اور صریح الفاظ میں دی تھیں اس لیے عدت کے پائے جانے کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتیں۔جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالجات میں واضح ہے:

۶۔ حاشیہ ابن عابدین (4/419) میں ہے:قوله: (ومحله [الطلاق] المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

۷۔ فتح القدیر (3/443) کتاب الطلاق میں ہے:وفي الزوجة أن تكون منكوحته أو في عدته التي تصلح معها محلا للطلاق. وضبطها في المحيط [البرهاني في مسائل العدة: 5/234] فقال: المعتدة بعدة الطلاق يلحقها الطلاق، والمعتدة بعدة الوطء لا يلحقها الطلاق

۸۔ در مختار مع حاشیہ ابن عابدین (4/528، 529) میں ہے:(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة …….. فمنه الطلاق الثلاث فيلحقهماقوله: (بشرط العدة) هذا الشرط لا بد منه في جميع صور اللحاق، فالأولى تأخيره عنها. اهـ. ح ……… قوله: (فمنه إلخ) أي إذا عرفت أن قوله الصريح يلحق الصريح والبائن المراد بالصريح فيه ما ذكر ظهر أن منه الطلاق الثلاث فيلحقهما أي يلحق الصريح والبائن، فإذا أبان امرأته ثم طلقها ثلاثا في العدة وقع وهي واقعة حلب.

اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ادارہ ’’ تحریک منہاج القرآن، لاہور‘‘ کی طرف سے جاری شدہ فتویٰ میں جو یہ قاعدہ تحریر کیا گیا ہے کہ:

’’اور دوسری قسم کے وہ الفاظ ہیں جن سے نیت یا دلالت حال کی بناء پر طلاق واقع ہونے سے عدت میں یا عدت کے بعد مزید طلاقیں واقع نہیں ہوتیں کیونکہ محل طلاق ہی باقی نہیں رہتا یعنی نکاح ہی ختم ہوجاتا ہے۔‘‘

اس میں کنائی الفاظ سے نیت یا دلالتِ حال کی بناء پر واقع ہونے والی طلاق کی ’’عدت میں‘‘ مزید طلاقوں  کے عدمِ وقوع کا دعویٰ درست نہیں، کیونکہ اوپر شامیہ اور فتح القدیر کی عبارات جو ہم نے ذکر کی ہیں ان میں طلاق کی عدت، چاہے طلاق رجعی کی عدت ہو یا طلاقِ بائن کی عدت ہو،میں مزید طلاقوں کا  واقع ہونا صراحتا مذکور ہے۔  نیز مذکورہ فتوے میں مذکور اس قاعدے کی کسی کتاب کے حوالے سے کوئی دلیل بھی ذکر نہیں کی گئی۔ لہٰذا اس قاعدے کی بناء پر مذکورہ فتوے میں تین طلاقوں کے واقع نہ ہونے کا حکم لگانا درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved