• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے نو سال پہلے تین طلاقیں دی تھیں، کیا اب رجوع ہوسکتا ہے؟

استفتاء

تقریباً نو سال پہلے میرے شوہر نے مجھے طلاق دی تھی ایک وقت میں تین بار جس کی ترتیب یوں تھی کہ ایک بار تو یہ ادا کیا کہ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اور اس کے بعد صرف یہ کہا کہ ’’طلاق، طلاق‘‘ یعنی  باقی دو دفعہ میں پہلے کی طرح نہیں کہا۔ مزید یہ کہ اس سے 15 سال پہلے یہ بولا کہ میں تمہیں فارغ کر دوں گا (لفظ طلاق استعمال نہیں کیا تھا) اور ہم نے رجوع بھی کرلیا تھا اور اب تین ماہ پیشتر ہم نے نکاح  کیا تھا وہ یو۔ کے گئے تو تھوڑے عرصہ بعد ان کو برین ہمبریج ہوگیا ہے ، میں ان کی خدمت کرنا چاہتی ہوں اور ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں تو اس کا کوئی حل بتا دیں اگر دوسرے امام کے ہاں کوئی حل ہو تو وہ بھی بتا دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب آپ کے شوہر نے نو سال پہلے آپ کو طلاق کے الفاظ بولے تھے اسی وقت تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور نکاح ختم ہوگیا تھا اور صلح اور رجوع کی گنجائش بھی باقی نہ رہی تھی لہٰذا ٓپ کا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہ تھا، اس پر توبہ واستغفار کریں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے بیوی کو طلاق کا صریح جملہ کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی، پھر اس کے بعد دو دفعہ ’’طلاق، طلاق‘‘ کے الفاظ میں اگرچہ بظاہر بیوی کی طرف نسبت نہیں پائی جارہی لیکن چونکہ شوہر بیوی سے مخاطب تھا اور طلاق بیوی کو ہی دی جاتی ہے اس لیے معنا نسبت پائی جارہی ہے جو طلاق واقع ہونے کے لیے کافی ہے اس لیے دو دفعہ طلاق طلاق کہنے سے دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی تھی۔ نیز یاد رہے کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے نزدیک تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور صلح یا رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ تعالی صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری (جلد1، صفحہ 232)میں تحریر فرماتے ہیں:

حيث قال مذهب جماهير العلماء من التابعين و من بعدهم منهم الأوزاعي و النخعي و الثورى و ابوحنيفة و أصحابه و مالك و أصحابه والشافعي و أصحابه و احمد و أصحابه و إسحاق و ابوثور و ابوعبيدة و آخرون كثيرون على أن من طلق امرأته ثلاثا يقعن و لكنه يأثم

مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح (جلد6 صفحہ 293) میں ہے:

قال النووى "اختلفوا فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي وأحمد وابوحنيفة والجمهور من السلف و الخلف يقع ثلاثا

وفيه وأيضا: وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث (جلد 3 صفحه 330)

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة ….. الخ

رد المحتار (4/444) میں ہے:

ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ ………….. ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved