• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے شدید غصہ میں لا علمی میں طلاق کے الفاظ بول دیئے، کیا طلاق ہوگئی؟

استفتاء

شوہر کا بیان:

’’میرا اپنی بیوی سے کسی بات پر تکرار ہوا، میں گھر سے باہر گیا ہوا تھا، جب میں واپس آیا تو میرا میری بیوی کے تکرار پر جھگڑا ہوگیا جس پر میں نے اپنی بیوی کو دھکے بھی دیئے اور گالیاں بھی دیں جب کہ اُس نے بھی مجھے گالی دی جس پر میرے منہ سے کیا کچھ نکلا؟ مجھے کچھ معلوم نہیں، میں گھر سے باہر نکل گیا، میری بیوی نے چند منٹ بعد مجھے فون کیا کہ گھر واپس آؤ، جب میں واپس آیا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ نے مجھے یہ لفظ کہے ہیں کہ ’’تو مجھ پر تین طلاقوں سے حرام ہے‘‘ میں حلفاً کہتا ہوں کہ مجھے بالکل معلوم نہیں کہ اس وقت غصہ کی حالت میں، میں نے یہ الفاظ ادا کئے بھی ہیں یا نہیں؟

اور واضح رہے کہ مجھے ہر بات پر غصہ نہیں آتا اور نہ میں اپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا کرتا ہوں، اس لیے واضح کیا جائے کہ یہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟ ‘‘

بیوی کا بیان:

’’میرا اور میرے شوہر کا جھگڑا ہوا جس پر اُن کو خوب غصہ آیا اور اُن کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ ’’تو مجھ پر تین طلاقوں سے حرام ہے‘‘ ایک ہی دفعہ کہا ہے، جب کہ یہ الفاظ کہتے وقت اُن کی کیفیت عجیب سی تھی جیسے وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے، جب غصہ ختم ہوا تو مانتے نہیں تھے کہ میں نے اس طرح کہا ہے، کہتے ہیں نہ مجھے یاد ہے نہ مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا کہا ؟ مگر میں نے یہ الفاظ سنے  ہیں  واللہ ان کی عادت نہیں تھی چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ کرنا نہ لڑائی جھگڑا تھا۔ میرے شوہر ٹینشن میں تھے اس لیے اُن کا غصہ اُن کی عقل پر غالب تھا، میں حلفاً یہ بات کہتی ہوں کہ وہ اس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔ غصہ اتنا تھا کہ پتہ نہیں چلا۔  وضاحت فرما دیں کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگر واقعتاً شوہر کی حالت غصہ کی وجہ سے ایسی ہوگئی تھی کہ اسے طلاق کے الفاظ کہنے کا بالکل علم نہیں تھا اور طلاق کے الفاظ کہنے کا علم نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم بھی دیتا ہے  تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اور اگر شوہر کو طلاق کے الفاظ کہنے کا علم تھا یا شوہر بیوی کے سامنے طلاق کے الفاظ کہنے کا علم نہ ہونے پر قسم دینے سے انکار کرتا ہے تو بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی جن سے بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی اور صلح یا رجوع کی گنجائش بھی باقی نہ رہے گی۔

توجیہ: طلاق کے الفاظ بولتے وقت شدید غصہ کی وجہ سے اگر شوہر کی ایسی کیفیت ہوجائے کہ اسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا علم نہ ہو تو غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن شوہر کو طلاق کے الفاظ کہنے کا علم تھا یا نہیں؟ یہ چونکہ باطنی امر ہے جس پر مطلع ہونا ممکن نہیں ہے لہٰذا شوہر کو طلاق کے الفاظ کہنے  کا علم نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم دینی ہوگی۔ جیسے کنایاتِ طلاق کی جن صورتوں میں طلاق کا واقع ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہوتا ہے وہاں شوہر جب  طلاق کی نیت نہ ہونے کا مدعی ہو تو نیت کے باطنی امر ہونے کی وجہ سے شوہر سے قسم لی جاتی ہے۔

رد المحتار(439/4) میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اهـہدایہ کتاب الطلاق (2/391)میں ہے:"وفي كل موضع يصدق الزوج على نفي النية إنما يصدق مع اليمين لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قول الأمين مع اليمين.”البحر الرائق (3/519) میں ہے:"وفي المجتبى عن صدر القضاة في شرح الجامع الصغير إذا قال: لم أنو الطلاق فعليه اليمين إن ادعت الطلاق، وإن لم تدع يحلف أيضا حقا لله تعالى ن قال أبو نصر قلت لمحمد بن سلمة ‌يحلفه ‌الحاكم أم هي تحلفه قال يكتفى بتحليفها إياه في منزله فإذا حلفته فحلف فهي امرأته وإلا رافعته إلى القاضي، وإن نكل عن اليمين عنده فرق بينهما اه.”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved