• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر نے تینوں طلاقیں ایک ہی طلاقنامے میں لکھ کر بھیج دیں، کیا تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟

استفتاء

میرے شوہر نے مجھے طلاق نامہ بھیجا ہے جس میں تین طلاقیں لکھی ہیں اور یہ لکھا ہے کہ میرے اور مردوں سے تعلقات ہیں اور میں اچھی  عورت نہیں ہوں۔  میرے شوہر نے پڑھ کر اس پر دستخط کیے ہیں،  تو کیا میری طلاق ہوئی ہے؟ کیونکہ میں واپس رجوع کرنا چاہتی ہوں ، میرے دو بچے بھی ہیں ، میں نے کافی مفتیوں کو سنا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی،  تین مختلف موقعوں پر طلاق دی جاتی ہے ، پہلی دفعہ میں نہیں ہوتی ، اس میں تین ماہ میں رجوع کیا جا سکتا ہے۔  مجھے لکھا ہوا فتوی چاہیے ، مہر کے ساتھ قرآن اور حدیث کے حوالے سے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ : شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں ۔

جواب وضاحت : ان کا رابطہ نمبر بند ہے ان سے رابطہ نہیں ہو سکتا۔

طلاقنامہ کی عبارت درج ذیل ہے:

“………WHEREAS in such situation, you have been failed to live within the limits as prescribed by the Almighty Allah.

Hence, today, the 26th of July, 2021, (1) **** R/o House # 1 Peshawar Divorce you *****.

(1) 1 ** R/o House # 1-A,  Town. Peshawar Divorce you **D/O Syed ****.

(1) 1 ** R/o House # 1-A, . Peshawar Divorce you **D/O **. AND your are no more my wife.

WHEREAS, you are not pregnant from me and nothing is outstanding any sort of money against me.

In WITNESSES WHEREOF: I, *** do hereby set my hand to this deed of divorce this 26th Day of July, 2021.”

]ترجمہ: موجودہ صورتحال میں آپ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود میں رہنے میں ناکام رہی ہو لہذا (1)میں**۔۔۔۔۔۔۔الخ،  تم ** کو طلاق دیتا ہوں ، (2) میں ۔۔۔۔۔۔۔الخ ، تم** کو طلاق دیتا ہوں  (3)میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ تم** کو طلاق دیتا ہوں اور اب تم مزید میری بیوی نہیں ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر یہ اسٹام پیپر شوہر نے خود بول کر لکھوایا تھا یالکھا تو  کسی اور نے تھا لیکن اس نے اسے خود پڑھ لیا تھا یا اسے پڑھ کر سنا دیا گیا تھا الغرض اسے اس تحریر کا  اور اس میں تین طلاقوں کے ہونے کا علم تھا اور اس نے اپنی رضامندی سے اس پر دستخط کیے تھے تو  اس اسٹام پیپر سے تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں  لہٰذا اب نہ رجوع  ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

واضح رہے کہ تین طلاقیں چاہے اکٹھی دی جائیں یا الگ الگ دی جائیں بہرصورت تین ہی ہیں۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین  اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔

مسلم شریف (2/962 حدیث نمبر 1471 ط بشری ) میں ہے: عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال ……… اما انت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما امرك به من طلاق امرأتك وبانت منك

’’نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے (اکٹھی تین طلاقیں دینے والے سے کہا ) تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم (بتایا ہوا طریقہ) ہے اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔‘‘ابو داؤد (1/666 حدیث نمبر 2197 ط بشری) میں ہے:عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال: انه طلق امراته ثلاثا. قال: فسكت حتى ظننت انه رادها اليه. ثم قال: ينطلق احدكم فيركب الحموقة  ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس وان الله قال (ومن يتق الله يجعل له مخرجا ) وانك لم تتق الله فلا اجد لك مخرجا عصيت ربك وبانت منك امراتك’’مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص  ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(اکٹھی)  تین طلاقیں دے دی  ہیں تو (کیا گنجائش ہے اس پر) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر ) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے اور (تین طلاقیں  دے بیٹھتا ہے ) پھر آکر کہتا ہے اےابن عباس اےابن عباس (کوئی راہ نکالیئے کی دہائی دینے لگتا ہے ) حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ومن یتق الله یجعل له  مخرجا(جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں۔)‘‘

تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا  (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ  کی بات ہے) تو میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تین طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔

علامہ بدرالدین العینی  رحمہ اللہ تعالی صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری (جلد1 صفحہ232 )میں تحریر فرماتے ہیں :حيث قال مذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم من الاوزاعي والنخعي والثوري و ابو حنيفه واصحابه ومالك واصحابه والشافعي واصحابه واحمد واصحابه و اسحاق وابو ثور وابو عبيدة واخرون كثيرون على ان من طلق امراته ثلاثا يقعن ولكنه ياثممرقاۃ المفاتيح شرح مشكاۃ المصابيح ( جلد6صفحہ293) میں ہے:قال النووي اختلفوا في من قال لامراته انت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي واحمد وابو حنيفه والجمهور من السلف والخلف يقع ثلاثا.وفيه أيضاً: مذهب جمهور الصحابه والتابعين ومن بعدهم من ائمه المسلمين الى انه يقع ثلاث(جلد3صفحه 330)

فتاویٰ عالمگیری(201/2) میں ہے :واذا قال لامراته انت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط ان كانت مدخولة طلقت ثلاثا وان كانت غير مدخولة طلقت واحدة. فتاویٰ شامی (4/449) میں ہے:و المراة كالقاضي اذا سمعته او اخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.فتاوی شامی(4/509) میں ہے:كرر لفظ الطلاق وقع الكل و أن نوى التأكيد دين .قوله(كرر لفظ الطلاق ) بأن قال للمدخولة أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق و أنت طالق.درمختار مع ردالمحتار(442/4) میں ہے :فروع :كتب الطلاق ، إن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى ، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا .قوله 🙁 كتب الطلاق الخ ) قال في الهندية : الكتابة على نوعين : مرسومة وغير مرسومة  ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا………… وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة .فتاوی شامی(4/443) میں ہے:وفي التتارخانيه……….ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه و عنونه بعث به  إليها فاتاها وقع إن اقر الزوج أنه كتابه……..وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اھ۔ ملخصا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved