• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

1۔طلاق کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ 2۔حمل کی حالت میں طلاق ہو سکتی ہے؟3۔اس عورت کی عدت کیا ہوگی؟

استفتاء

سائل کو اپنے مسئلے کا حل بتائیں ،مسئلہ مندرجہ ذیل ہے،وہ یہ کہ میاں بیوی تنازعےکے باعث علیحدہ رہ رہے ہیں اور تنازعہ شدت اختیار کرتے ہوئے نوبت طلاق تک پہنچ گئی ہے صلح کی کوئی صورت باقی نہیں ہے،بیوی آٹھ ماہ سے زائد کی حاملہ ہے، براہ مہربانی طلاق کاصحیح طریقہ یا اس مسئلہ کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں بتا دیں۔

1۔طلاق کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

2۔حمل کی حالت میں طلاق ہو سکتی ہے؟

3۔اس عورت کی عدت کیا ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)طلاق دینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایسے طہر(پاکی)میں صرف ایک طلاق رجعی (صاف الفاظ میں مثلا میں تمہیں طلاق دی)دے جس میں ہمبستری نہ کی ہو اور اگررکھنےکاارادہ نہ ہوتو عدت میں رجوع نہ کرے،عدت پوری ہونے کے بعد نکاح ختم ہو جائےگاجس کےبعد عورت جہاں چاہے نکاح کر سکےگی۔ا س طلاق کو شریعت میں طلاق احسن کہتے ہیں، ایسی صورت میں آئندہ شوہر کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

(2)حمل کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

(3) جس عورت کو حمل کے دوران طلاق ہو جائے اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش)ہے۔

فتاویٰ شامی(4/420)میں ہے:

(طلقة)رجعية(فقط في طهر لاوطءفيه)وتركهاحتي تمضي عدتها(أحسن)بالنسبةإلي البعض الآخر.

فتاویٰ شامی(5/192)میں ہے:

العدة….في حق الحامل مطلقا ولوأمة أو كتابية….وضع جميع حملها لأن الحمل اسم لجميع مافي البطن.

فتاویٰ شامی(5/422)میں ہے:

(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved