• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے وسوسے سے طلاق کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے طلاق کے بارے میں بہت وساوس آتے ہیں ایک بار وسوسہ اور شک آیا کہ میں نے ہونے والی بیوی کو طلق کہا (طا پر فتحہ اور لام کلمہ پر تشدید کے ساتھ فتحہ ہے اور ق ساکن ہے )تو میں نے اس کے بعد زبان سے کہا ’’ہونے والی بیوی کو ‘‘اس حدتک کہنے کا پختہ یقین ہے اس کے ساتھ لفظ طلاق (بتشدید لام فتحہ کے ساتھ )بولاہے یا نہیں اس میں شک کے ساتھ غالب گمان کبھی کبھی بولنے کا ہو جاتا ہے ۔اگر لفظ طلق نکل گیا تو اس کے بعد تین طلاق تعلیقا بولنے سے طلاق نہیں ہوتی ہے ۔تو اس بارے میں بھی دل میں آتا رہتا ہے کہ ہونے والی بیوی کو طلق کہنے میں تو کچھ نہ کچھ شک ہے ۔تو تین طلاق واقع نہ ہونے میں کیا گارنٹی ہے ۔اس بارے میں فیصلہ کریں ۔ ہمارے وہاں کوئی دارالافتاء نہیں ہے اور نکاح کاوقت بھی بہت قریب ہو گیا ہے ،ایک ہفتہ ہے ۔شکریہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

توجیہ:

اول تو طلاق کا شک ہے دوسرے وساوس کا مسئلہ ہے ،تیسرے الفاظ یہ ہیں ’’ہونے والی بیوی کو طلاق ‘‘یہ کلمہ کل امرأۃ اتزوجھا کا مرادف نہیں ہے بلکہ یہ تصور ہے خاص عورت کاکہ اس کو طلاق ہے ۔اس لیے یہ لفظ لغو ہو گا کیونکہ یہ طلاق نہ منکوحہ کو ہے اور نہ اس میں اضافت الی النکاح  ہے۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved