• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق نامہ پر زبردستی دستخط کروانا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں  علماء دین کہ بندہ محمد عثمان شاہد مندرجہ ذیل اقرار کرتا ہے (اس اقرار نامے کی روشنی اور مزید طلاق نامہ کی روشنی میں  طلاق کی کونسی شکل سامنے آتی ہے ؟بندہ اپنی سابقہ بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے رجوع کی کیا صورت ہو گی ؟)

اقرار نامہ

۱۔ میں  بندہ محمد عثمان شاہد اقرار کرتا ہوں  کہ یہ طلاق نامہ میں  نے نہیں  لکھا نہ ہی لکھوایا بلکہ اسے میرے والد نے بغیر میرے امر بغیر اطلاع بغیر اجازت لکھوایا ۔

۲۔ پھر مجھے اور اس طلاق نامہ کو لیکر میرے سسر کے پاس گئے وہاں  مجھ کو اسے پڑھنے کا حکم دیا ۔میں  نے اس طلاق نامہ کو پورا نہیں  پڑھا اور لفظ طلاق پڑھ کر خاموش ہو گیا وہاں  نشان لگادیا ہے منسلکہ طلاق نامہ میں  ۔

۳۔            میرے زبردستی دستخط کرائے گئے میں  طلاق دینے پر آمادہ نہیں  تھا اور میری بیوی کے بھی دستخط کرائے گئے ۔

۴۔            اس طلاق نامے کو اگر چہ میں  نے پورا نہیں  پڑھا لیکن میرے علم میں  تھا کہ اس میں  طلاق مغلظہ دلوائی جارہی ہے ۔ میرے والد نے جبر واکراہ کرا کے اور جائیدادسے محرومی کی دھمکی دے کرمیرے دستخط کروائے ۔میرا ارادہ طلاق دینے کا بالکل نہیں  تھا ۔یہ تمام باتیں  میری معلومات کے مطابق صحیح ہیں  ۔میں  نے تمام باتوں  کا اقرار کرتا ہوں  اور رجوع کرنا چاہتا ہوں  ۔

وضاحت مطلوب ہے:

اس جبر واکراہ کی تفصیل مہیا کی جائیں  ۔ایک دھمکی جائیداد سے محرومی کی تو مذکور ہے کیا اس کے علاوہ بھی کچھ کہا تھا ؟اور کیا کہا تھا؟

جواب وضاحت :

والد صاحب نے فرمایا کہ اگر طلاق نہیں  دوگے تو ہمارا ہر طرح سے تعلق ختم ہے مطلب والدین کو مکمل طور پر چھوڑنا پڑھ رہا تھا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  کوئی طلاق واقع نہیں  ہوئی۔

توجیہ:         مذکورہ طلاق نامہ پر اگر چہ خاوند نے دستخط کیے ہیں  اور اسے یہ علم تھا کہ اس میں  طلاق مغلظہ دلوائی جارہی ہے ۔لیکن چونکہ خاوند پر دبائو تھا کہ والد کی جانب سے تعلقات ختم کرنے اور جائیداد سے محروم کرنے کی دھمکی تھی اور خاوند نے اس دبائو میں  آکر بادل نخواستہ دستخط کیے ہیں  اس لیے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

في الشامية،کتاب الاکراه(428/9)

فلو اکره علي ان يکتب طلاق امراته فکتب لاتطلق لان الکتابة اقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة والاحاجة ههنا ۔

وايضا فيه(219/9)

والثالث کون الشيء المکره به متلفا نفسا او عضوا او موجبا عما يعدم الرضا وهذا ادني مراتبه وهو يختلف باختلاف الاشخاص قال الاشراف يغمون بکلام خشن والارذال ربما لايغمون الا بالضرب المبرح۔قوله (عما يعدم الرضا)اي مع بقاء الاختيار الصحيح والا فالاکراه بمتلف يعدم الرضا ايضا ولکنه يفسد الاختيار کما قدمناه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved