• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق صریح کے بعد کنائی الفاظ بولنے سے بائنہ طلاق ہوتی ہے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مسمی فیصل نے اپنی زوجہ سے کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دے دی ہے، تو اپنے گھر چلی جا، میں نے تجھے طلاق دے دی ہے،تو اپنے گھر چلی جا ‘‘تیسری مرتبہ کہنے لگا تو اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ پھر میں نے اس کے والد کو فون کیا اور کہا دو یا تین مرتبہ کہ میں نے تمہاری بیٹی کو طلاق دے دی ہے اور وہ میری طرف سے فارغ ہے، اس کو آ کر لے جائیں، اس کے والد نے کہا کہ بیٹا ایسی باتیں نہیں کرتے، میں نے کہا کہ میری طرف سے وہ آج بھی فارغ ہے ،کل بھی فارغ ہے، سامان اٹھا لیں۔ برائے مہربانی اس مسئلہ کا جواب مرحمت فرمائیں۔

اس کے بعد لڑکی کے والد صاحب نے کہیں سےفتوی لاکر ہماری آپس میں صلح کرا دی اور دوبارہ نکاح پڑھوا کر پھر ہم نے تقریبا15مہینے زندگی گزار ی اور ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی۔اب ہمارے لئے کیا حکم ہے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں رسوائی اور عذاب سے محفوظ رہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے:

لڑکی کو اس بیان سے اتفاق ہے؟

جواب وضاحت :

جی ،لڑکی کا کہنا ہے کہ دو مرتبہ طلاق کا جملہ مکمل کہنے کے بعد تیسری دفعہ سے پہلے میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔

سائل کا واسطہ بننے والے مولانا صاحب سے فون پر بات ہوئی انہوں نے کہا کہ میں نے لڑکے سے پوچھا تھا کہ آپ کی اس جملہ سے کہ’’ تو اپنے گھر چلی جا‘‘کیامراد تھی؟ تواس نے کہا کہ پچھلی طلاق ہی بتا رہا تھا، نئی طلاق دینا میری مراد نہیں تھی اور اسی طرح سسر کو فون کرکے جو یہ کہاکہ’’ تمہاری بیٹی کو طلاق دے دی ہے ‘‘اس سے بھی خبر دینا مراد تھی (عبدالسلام)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوئی تھی جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا تھا، اس کے بعد چونکہ نیا نکاح کرلیا گیا ہے، لہذا اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔

نوٹ: آئندہ شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیاررہ جائے گا۔

توجیہ:

شوہر کا پہلا جملہ’’ میں نے تجھے طلاق دے دی ہے‘‘ا قرار کاجملہ ہے نہ کہ انشاء کا۔ اقرار اگر جھوٹا بھی ہو تو بیوی کے حق میں اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا اس جملے سے بیوی کے حق میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی،اس کے بعد شوہر کایہ کہنا کہ’’تو اپنے گھر چلی جا‘‘ کنایات طلاق میں سے قسم اول ہے اوررجعی طلاق کے بعد اگربائنہ طلاق کے الفاظ استعمال کیے جائیں خواہ وہ قسم اول میں سے ہوں توہمارعرف میں اس سے مراد سابقہ رجعی طلاق کوبائنہ بنانا مقصود ہوتا ہے ،نئی طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا، لہذا ان الفاظ سے سابقہ رجعی طلاق بائنہ طلاق بن گئی۔ اس کے بعد جو بھی الفاظ شوہر نے استعمال کیے ہیں وہ چونکہ سابقہ طلاق کی خبر ہیں،لہذا ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی

في البزازية:2/264

طلقها ثم قال طلقتک اوقال طلاق دارم ترايقع اخري ولوقال طلاق داره ام اوکنت طلقتک لايقع اخري لانه اخبار

في المحيط البرهاني:4/393

رجل طلق امرأته وقال قد طلقتک تقع تطليقة ثانيةولو قال لها قد کنت طلقتک لايقع شيئ لانه قد تذکرلتاکيد الحال وقد تذکرللماضي فلاتصير للماضي بالاحتمال اما قوله قد کنت طلقتک لايستعمل الاللماضي ووزان المسألة الاولي بالفارسية (دادم تراطلاق)ووزان مسألة الثانية(دادم ام تراطلاق)

امدادالمفتین 2/ 532  میں ہے:

سوال: جو شخص مسئلہ طلاق سے ناواقف وہ دھمکانے کے لیے اپنی زوجہ کو دو مرتبہ یہ کہہ دے کہ’’ میں نے طلاق دی‘‘اورتیسری مرتبہ یہ کہہ دے کہ’’بخدا میرا تجھ سے تعلق نہیں یا تعلق نہ رکھوں گا‘‘ اور نیت طلاق کی قطعی نہ رکھتا ہو، اس صورت میں وہ اپنی عورت کو رکھ سکتا ہے یا نہیں؟

جواب :پہلی دو طلاقیں قطعااور یقینا واقع ہوگئی،کیونکہ لفظ طلاق میں نیت کرنا اور نہ کرنا ،دھمکی کے لئے کہنا یا محض ہنسی سے کہنا، سب برابر ہے، ہر حال میں طلاق واقع ہو جاتی ہےکما صرح بہ الفقہاء من غیر خلاف اورحدیث میں ہےثلث جدھن جد وہزلھن جدوعدمنھا طلاق۔البتہ تیسری مرتبہ جو لفظ بولے ہیں اس میں تفصیل ہے اگر یہ لفظ کہے کہ ’’میں تعلق نہ رکھوں گا ‘‘تو ان لفظوں سے نہ طلاق جدید واقع ہوتی ہےاورنہ پہلی طلاقوں پر اس کاکوئی اثر پڑتاہے کیونکہ یہ صورت وعدہ ہے ایقاع نہیں۔سو اس صورت میں دونوں طلاقیں رجعی رہیں گی،حالت عدت میں بلاتجدیدنکاح رجعت کرسکتا ہے اور بعد عدت تجدید نکاح بغیر حلالہ ہوسکتی ہے۔اوراگر تیسری مرتبہ میں یہ لفظ کہے ہیں کہ’’ میرا تجھ سے تعلق نہیں‘‘ تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ ان لفظوں سے اس کی نیت تیسری طلاق کرنے کی نہ تھی توپہلی دوطلاقیں ان لفظوں کی وجہ سے بائنہ ہوجائیں گی اوراس صورت میں رجعت کا حق تو نہ رہے گا لیکن نکاح جدید بغیر حلالہ ہو سکےگا۔لما فی الخلاصۃ لو قال لامرأتہ انت طالق ثم قال للناس زن من برمن حرام است وعنی بہ الاول اولانیۃ لہ فقد جعل الرجعی بائنا وان عنی بہ الابتداء فھی طالق اخربائن خلاصۃ الفتاوی

اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ کنایہ اگر مطلقہ رجعی کے حق میں بولے جائیں تو طلاق جدید کی نیت کرنے سے طلاق جدید واقع ہوجاتی ہے اور کچھ نیت نہ کرنے سے پہلی طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved