• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاقناموں میں طلاق کے صریح الفاظ کے بعد کنایہ کا استعمال:

استفتاء

السلام علیکم! میرا *** ہے، ميری شادی کے تقریبا دو ماہ بعد رمضان سے تقریبا 6 دن پہلے میرا اپنی بیوی کے ساتھ فون کال کے دوران جھگڑا ہوا، بیوی اس وقت میکے تھی۔ پھر بیوی کا مجھے فون آیا، میں نے بیوی کی والدہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں اب ان کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اور میرا ارادہ یہ تھا کہ طلاق کے پیپر وغیرہ تیار کروا کر بھیج دینے ہیں۔ تقریبا 15 دن بعد میں نے طلاق کی نیت سے ایک نوٹس لکھا لیکن میں نے بھیجا نہیں ، پھر تقریبا 25 دن بعد بیوی کی ساری فیملی ہمارے گھر آئی، ان سے میری بات ہوئی۔ بیوی کے والد نے مجھ سے پوچھا اب تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے ان کو کہا کہ میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ پھر دو دن بعد طلاق کی نیت سے دوسرا نوٹس لکھوا لیا، پھر میں نے دونوں نوٹس اکٹھے بھیج دیئے۔ مجھے اس مسئلے کا حل بتایا جائے۔

طلاق نامہ اول کی عبارت:

’’۔۔۔۔۔۔ من مقر فریقِ اول شریعتِ محمدی کے مطابق فریقِ دوئم مسماۃ ***کو امروز مورخہ 29-04-2020 کو بذریعہ دستاویزات ہذا رو برو گواہان حاشیہ بقائمی ہوش وحواس خمسہ وثبات  عقل برضا خود بلا جبر واکراہ غیر فریق دوئم کی مرضی ومنشاء کی بناء پر طلاق اول دیتا ہوں اور مسماۃ ***کو اپنی زوجیت سے الگ کرتا ہوں اب من مقر اس کے کسی قول وفعل کا ذمہ دار نہ ہوگا مسماۃ ***بعد از گذرنے مدتِ عدت جس طرح چاہے اپنی زندگی بسر کرسکتی ہے اب میرا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے۔۔۔‘‘

طلاق نامہ دوئم کی عبارت:

’’۔۔۔۔۔۔ من مقر فریقِ اول شریعتِ محمدی کے مطابق فریقِ دوئم مسماۃ ***کو امروز مورخہ 30-5-2020 کو بذریعہ دستاویزات ہذا رو برو گواہانِ حاشیہ بقائمی ہوش وحواس خمسہ وثبات  عقل برضا خود بلا جبر واکراہ غیر فریق دوئم کی مرضی ومنشاء کی بناء پر طلاق دوئم دیتا ہوں اور مسماۃ ***کو اپنی زوجیت سے الگ کرتا ہوں اب من مقر اس کے کسی قول وفعل کا ذمہ دار نہ ہوگا مسماۃ عاصمہ بعد از گذرنے مدتِ عدت جس طرح چاہے اپنی زندگی بسر کرسکتی ہے اب میرا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے۔۔۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا میاں بیوی اگر اکٹھے رہنے چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے لئے ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

توجیہ: طلاق نامہ میں مذکور اس جملہ سے  کہ ’’طلاقِ اول دیتا ہوں‘‘ ایک طلاق رجعی واقع ہوئی۔  اس کے بعد اس جملہ سے کہ ’’مسماۃ عاصمہ کو اپنی زوجیت سے الگ کرتا ہوں‘‘ سے سابقہ رجعی طلاق، بائنہ ہوگئی كيونکہ صریح طلاق کے بعد کنائی لفظ بولنے سے عام حالات میں وصف میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ عدد میں۔  پھر اس کے بعد مذکور جملے سے کہ ’’میرا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے‘‘لا يلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

دوسری طلاق، طلاق نامہ دوئم میں مذکور اس جملہ سے واقع ہوئی ’’طلاق دوئم دیتا ہوں‘‘۔ چونکہ پہلے ایک طلاق نامہ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی تھی اس لئے اس جملے سے بھی طلاق بائنہ ہی واقع ہوئی اور اس کے بعد جو جملے مذکور ہیں کہ’’مسماۃ عاصمہ کو اپنی زوجیت سے الگ کرتا ہوں‘‘  اور ’’میرا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے‘‘ان سے لا يلحق البائن البائن کے تحت مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

امداد المفتین (ص521) میں ہے:

’’سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’میں نے اور میرے والدین نے تمہیں گھر آباد کرنے کی جدوجہد کی، لیکن سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں،اس واسطے تنگ آکر تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا، میں یہ طلاقنامہ تم کو تمہارے والد کی وساطت سے بھیجتا ہوں‘‘ اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے، صورت مذکورہ میں کنایہ کے دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں، اول ’’میرا تم سے کچھ تعلق نہیں‘‘ دوسرے ’’تم اس خط کو سن کر اپنے کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا‘‘ یہ دونوں لفظ کنایات بوائن میں سے ہیں……………الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔

لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2) و فى الكنز أنت طالق بائن إلى قوله فهي واحدة بائنة و فى فتح القدير قيد بكون البائن صفة بلا عطف لأنه لو قال أنت طالق و بائن أو قال أنت طالق ثم بائن و قال لم أنو بقولى بائن شيئا فهى رجعية و لو ذكر بحرف الفاء و الباقى بحاله فهى بائنة كذا فى الذخيرة ( بحر جلد3، صفحه 500)

عبارات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ جب عبارت میں کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ الفاظ کنایہ طلاق سابق کا بیان یا تفسیر و تفریع ہیں تو ایک طلاق بائنہ بلا احتیاج الی النیۃ واقع ہو جائے گی جیسا کہ بائن کے حکم سے ظاہر ہوا بحوالہ فتح القدیر، اور اسی طرح جب کہ متکلم ان لفظوں سے طلاق اول کے بیان کی نیت کرے طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اگرچہ لفظوں میں کوئی حرف تفریع وغیرہ موجود نہ ہو كما ظهر من عبارة الخلاصة و قال فى البحر كل كناية قرنت بطالق يجرى فيها ذلك (بحر صفحه 501 جلد 3)

اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔لما فى الدرالمختار ولو عطف و قال و بائن أو ثم بائن ولم ينو شيئا فرجعية (4/488) اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔  لما فى الدرالمختار و عامة كتب الفقه من كون البائن و الخلية و البرية من القسم الثاني من الكنايات الذي لايتوقف على النية فى مذاكرة الطلاق و قد صرح الشامي بأن تقديم الايقاع من مذاكرة الطلاق حيث قال تفسر المذاكرة بسؤال الطلاق او تقديم الايقاع و فى الدرالمختار لان مع الدلالة لا يصدق قضاء فى نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة و النية باطنة.

صورت مذکورہ میں جو لفظ کنایہ ہیں وہ بھی خلیۃ بریۃ کا ترجمہ ہیں، لہذا بحالت مذاکرہ محتاج نیت نہ ہوں گے اور مذاکرہ طلاق تقدیم ایقاع صریح سے ثابت ہو چکا، خلاصہ یہ کہ نیت متکلم کے اعتبار سے سورۃ اولی میں ایک طلاق بائنہ اور صورت ثانیہ میں دو بائنہ متعین ہیں اور صورت ثالثہ میں بعض عبارات فقہ سے ایک رجعی مستفاد ہوتی ہے اور بعض سے بائنہ، پھر چونکہ محاورات زبان اور عرف عام کے اعتبار سے تیسری صورت بہت مستبعد تھی اور رجعی ہونا بھی اس کا متیقن نہ تھا اور اس کے بیان کرنے میں سائل کو تلقین ہوتی تھی اس لیے جواب میں تیسری شق سے تعرض نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے اور حرف عطف (اور) محض عطف تفسیری ہے، چنانچہ خود سائل سے جب زبانی دریافت کیا گیا تو اسی نیت کا تحریری اقرار کیا جو تحریر ھٰذا کے ساتھ منسلک ہے، نظر براں صرف دو احتمالوں کا حکم لکھا گیا ہے کہ ایک صورت میں ایک طلاق بائنہ اور دوسری میں دو بائنہ واقع ہوں گی، تیسرا احتمال خلاف تبادر ہونے کے ساتھ خود متکلم کی مراد بھی نہیں اس لیے اس سے تعرض کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

البحر الرائق (533/3) میں ہے:

وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة

فتاوی شامی(42/5) میں ہے:

وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved