• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق بائن کےبعد ایک گواہ کی موجودگی میں نکاح پڑھانے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں   مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں   کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ہمبستری کے لیے بلایا لیکن اس کی بیوی تھکاوٹ کی وجہ سے سو گئی اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا تو میاں   نے اپنی بیوی کو یہ کہا کہ ’’آج کے بعد تم میرے لیے حرام ہو آج کے بعد میں   تمہیں   اس کام(ہمبستری) کے لیے نہیں   بلائوں   گا ۔ایک مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا تو انہوں   نے پانچ ہزار حق مہر کے ساتھ ایک گواہ کی موجودگی میں   تیسری دن نکاح پڑھادیا تھا۔اب میرے لیے کیا حکم ہے ؟

تنقیح

ہمیں   معلوم نہیں   تھا کہ اس سے نکاح پر کچھ فرق پڑتا ہے نیز نیت کچھ بھی نہیں   تھی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’آج کے بعد تم میرے لیے حرام ہو ‘‘یہ طلاق صریح بائن ہے جس سے ایک طلاق بائن بلا نیت واقع گئی اورنکاح ختم ہر گیا۔چونکہ مذکورہ صورت میں   دوبارہ پڑھا ہوا نکاح گواہی کے مکمل نہ ہو نے کی وجہ سے فاسد رہااس لیے اگر دوبارہ اکٹھا رہنا چاہتے ہیں   تو نئے مہر کے ساتھ دوگواہوں   کی موجودگی میں   نیا نکاح کرکے رہ سکتے ہیں  ۔یادرہے کہ آئندہ کے لیے صرف دوطلاقوں   کا اختیار باقی ہو گا۔

کمافي رد المحتار (504/2)

ان لفظ حرام معناه عدم حل الوطء ودواعيه وذالک يکون بالايلاء مع بقاء العقد وهو غير متعارف ويکون بالطلاق الرافع للعقد وهو قسمان بائن ورجعي لکن الرجعي لايحرم الوطء فتعين البائن وکونه التحق بالصريح للعرف لاينافي وقوع البائن به فان الصريح قد يقع به البائن کتطليقة شديدة ونحوه۔

وايضا فيه

وحاصله :ان فيه (انت علي حرام)عرفين عرف اصلي وهو کونه يمينا بمعني الايلاء وعرف حادث وهو ارادة الطلاق وماقاله شمس الائمة من انه لايصدق في القضاء بل يکون ايلاء مبني علي العرف الاصلي والفتوي علي العرف الحادث وهو ارادة الطلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولکن حمله علي الايلاء ليس هو الصواب في زماننا بل الصواب حمله علي الطلاق لانه العرف الحادث المفتي به فقوله في الفتح وهذا هو الصواب علي ماعليه العمل والفتوي احتراز عن ارادة اليمين اي الايلاء الذي هو العرف الاصلي وبهذا التقرير سقط مافي البحر والنهر من ان فيه نظرا لان العمل والفتوي انما هو في انصرافه الي الطلاق من غير نية لافي کونه يمينا

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved