• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے الفاظ کہنے کےبارے میں میاں بیوی کااختلاف

استفتاء

شوہر کا بیان حلفی

1۔ بیان ازاں اعجاز ا********** شناختی کارڈ نمبر ************ ہے۔

2۔ بیان ازاں میری شادی ہمراہ مسماۃ اسماء عرصہ تقریباً 14 سال پہلے ہوئی اور ہمارے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو کہ 13 سال کا ہے۔

3۔ من محلف حلفاً بیان کرتا ہے کہ ازوداجی زندگی کے دوران میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑا، گھریلو ناچاقی ضرور چلتی رہی ہے اور ہمارے عزیز رشتہ دار  بھی ہماری صلح کرواتے رہے ہیں لیکن اس دوران میں نے کبھی بھی اپنی بیوی کو طلاق زبانی یا درج رجسٹرڈ نہ دی ہے۔

4۔ من محلف شرعی لحاظ سے ازواجی زندگی کا ہمیشہ کا پابند رہا ہوں اور رہوں گا، پڑھا لکھا آدمی ہوں، شرعی اور قانونی طریقہ کار کو اچھی طرح جانتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر بیان حلفی دے رہا ہوں کہ آج تک میں نے کوئی طلاق نہ دی ہے۔

5۔ من محلف حلفاً بیان کرتا ہے کہ بیان ازاں اپنے ہوش و حواس میں لکھ کر دیا ہے، اس میں کوئی امر مخفی یا پوشیدہ نہ رکھا ہے۔

بیوی کا بیان حلفی

میں *****اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئی اپنے ساتھ ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو حلفاً بیان کرتی ہوں۔ میری شادی 10 اپریل 2005ء  کو اعجاز سے ہوئی۔

1۔ پہلی مرتبہ گھریلو جھگڑے کے بعد میں اپنی والدہ کے گھر آگئی تو اعجاز نے فون پر دھمکی دی کہ اگر آج شام تک گھر واپس نہ آئی تو تمہیں طلاق بھیج  دوں گا، مگر دونوں طرف کے رشتہ داروں نے بیٹھ کر صلح کروا دی۔

2۔ ماہ اکتوبر 2009ء اعجاز نے پنجابی میں کہا ’’جا میں نے نوں طلاق دِتی‘‘۔ اس کے بعد گھر ہی رہی اور میری نند چندا نے صلح کروا دی۔

3۔ ماہ فروری 2011ء اعجاز نے کیا ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘۔ میں گھر ہی رہی اور اس کے ہمسائیوں اور گھر والوں نے صلح کرا دی۔

4۔ 21 مارچ 2017ء اب آخری مرتبہ جھگڑے میں اعجاز نے پانچ سات مرتبہ میرے سامنے کہا ’’میں نے تمہیں طلاق دی، جاؤ چلی جاؤ یہاں سے‘‘۔ لہذا میں اپنے میکے آگئی۔

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو میں سمجھتی ہوں کہ شرعی حد تو حتم ہو چکی ہے۔ میں یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتی ہوں کہ اعجاز کا بیان حلفی سراسر جھوٹ کا پلندا ہے اور اس شخص کو شرعی حدود سے کوئی سرو کار نہیں۔ لہذا میرا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ ایسا جھوٹا شخص جس کو شرعی حدود کا خیال نہ ہو وہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے حلف دینے کو تیار ہو، میں ایسے شخص کے ساتھ ہرگز ہرگز رہنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میری نظر میں تو دنیا کی زندگی عارضی ہے لیکن میں شرعی حدود کو پامال کر کے حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور کسی صورت بھی حرام زندگی  گذار کر اپنی آخرت برباد نہیں کر سکتی۔

لہذا قرآن و سنت کی روشنی میں ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے میری رہنمائی فرمائی جائے۔

وضاحت مطلوب ہے:

پہلی اور دوسری طلاق کے کتنے عرصے بعد رجوع ہوا۔

جواب وضاحت:

اکتوبر میں پہلی طلاق کے بعد ایک مہینہ سے پہلے صلح ہو گئی تھی۔ اور فروری میں دوسری طلاق کے بعد تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد صلح ہو گئی تھی اور اس دوران تین ماہواریاں نہیں گذری تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب بیوی کو یقین ہے اور اس نے خود سنا ہے کہ اس کے شوہر نے مختلف اوقات میں طلاق کے مذکورہ الفاظ کہے ہیں اور اسے اپنے شوہر کے حلفیہ بیان پر اعتماد نہیں ہے تو بیوی کے حق میں ان الفاظ کی رُو سے تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ رجوع کی گنجائش ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved