• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے بارے میں زوجین کے اختلاف کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   میرے شوہر نے  2013ء میں  مجھے پہلی طلاق دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ ایک مرتبہ یہ الفاظ بولے تھے،  اس طلاق کے بعد ہم میاں بیوی کی طرح رہتے رہے  اور ہمارا رجوع ہو گیا تھا،  پھر 27 نومبر 2022ء کو میرے شوہر نے مجھے دوسری طلاق دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘  ایک مرتبہ یہ الفاظ بولے تھے اور میں نے خود اپنے کانوں سے سنے تھے،  میں اسی دن سے  الگ کمرے میں رہنے لگی ، 15 دن گھر میں الگ کمرے میں رہی پھر میں والدین کے گھر چلی گئی، اس طلاق کے بعد اب تک ہمارا رجوع نہیں ہوا، میرے شوہر کہتے ہیں کہ میں نے یہ الفاظ نہیں کہے، اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

شوہر کا بیان:

شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیاکہ 2013ء میں ایک طلاق دی تھی اور ہمارا رجوع ہو گیا تھا، میں نے دوسری طلاق نہیں دی، جب میری بیوی نے کمرہ الگ کیا تو بیوی کے سامنے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ میں نے یہ الفاظ نہیں کہے، پھر پندرہ دن بعد بیوی جب میکے چلی گئی اور خاندان کے بڑے بزرگوں نے مجھ سے کہا کہ تم رجوع کر لو تو ان سے حلفا یہی کہا تھا کہ میں نے طلاق نہیں دی تو میں رجوع کیوں کروں؟ اب بھی میں حلفا یہ کہتا ہوں کہ میں نے   طلاق نہیں دی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا بیوی نے  دوسری مرتبہ بھی شوہر سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو  بیوی کے حق میں (نہ کہ شوہر کے حق میں)  دوسری  رجعی طلاق واقع ہو گئی ہے لہذا  اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع کر لیا تو نکاح باقی رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو بیوی کے حق میں سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کے لیے دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہو گا۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ خود شوہر کو  طلاق دیتے ہوئے سن لے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، مذکورہ صورت میں بھی چونکہ بیوی کا دعوی یہ ہے کہ اس نے دوسری مرتبہ بھی شوہر سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ  ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘   لہذا     مذکورہ الفاظ  سے بیوی کے حق میں  دوسری طلاق بھی واقع ہو گئی ہے، اور چونکہ یہ طلاق رجعی ہے لہذا  اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع کر لیا تو فبھا ورنہ عدت گزرنے سے یہ طلاق بائنہ بن جائے گی اور سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا ۔

فتاوی شامی (4/449) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.

بدائع الصنائع (3/283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

امداد الاحکام (2/561) میں ہے:

قال فى عدة ارباب الفتوى : وما لا يصدق فيه المرء عند القاضى لايفتى فيه كما لا ىقضى فيه و قال فى شرح نظم النقاية و كما لايدينه القاضى كذالك اذا سمعته منه المرأة أو شهد به عندها عدول لا يسعه ان تدينه لانها كالقاضى لا تعرف منه الا الظاهر انتهى.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved