• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کے مختلف الفاظ سے طلاق کا حکم

استفتاء

میاں بیوی کے معمولی جھگڑے  میں بیوی خاوند سے یہ کہتی ہے  کہ”اگر میں تمہیں پسند نہیں تو مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے” اس کے بعد  فون بند کردیتی ہے، اب خاوند کا میسج (جو ساتھ لف ہے)  آتا ہے کہ:

***دانش آزاد کررہا ہے”اور اپنے گھر بھی  انفارم (اطلاع)  کرد و میں اپنے  گھر انفارم (اطلاع) کردوں گا، تمہارا یہی فیصلہ ہے تو میرا  بھی یہی فیصلہ ہے میں نہ زبردستی کرتا ہوں، نہ بلیک میل ہوتا ہوں، نہ پیار کی آڑ میں آکر جُھکتا ہوں اور یہ سکرین شارٹ ذہن میں رکھنا، جب آزادی کے پیپر بھیج دوں گا تو  یہ میسج بھی  اٹیچ (لف) کردوں گا اور بچوں کی  فکر نہ کرنا میں پال لوں گا”

جب بیوی نے یہ بات اپنے سسر سے کی تو اس نے کہہ دیا کہ آپ  کسی  کو یہ بات نہ بتانا اور بیٹے کو گالم گلوچ کرکے بولا کہ تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے فوراً اپنی بیوی سے رجوع کرو اور اس سے راضی ہوجاؤ، اب شوہر چونکہ دبئی میں ہے تو اس نے فون کے ذریعے بیوی سے معذرت کرلی ہے کہ میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی لہٰذا  یہ طلاق نہیں ہوئی، تم اور میں میاں بیوی ہیں۔16اگست کو یہ واقعہ ہوا اور 26 اگست کو بیوی کو معذرت کی کال آئی کہ میری طلاق کی نیت نہیں تھی اب بیوی کو معلوم نہیں کہ طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟لڑائی جھگڑے کے دوران خاوند اور بیوی کے درمیان   گالم گلوچ بھی ہوئی ہے۔اب آپ سے درخواست ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیں کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر  شوہر  کی واقعۃً طلاق کی نیت نہیں تھی اور وہ طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم بھی دیدے یعنی یوں کہہ دے کہ "اللہ کی قسم میری میسج میں ذکر کردہ الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی” تو مذکورہ صورت میں میاں بیوی  دونوں کے حق میں  ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے  اور چونکہ شوہر نے عدت کے اندر رجوع  بھی کرلیا  ہے اس لیے سابقہ نکاح باقی ہے لیکن اگر شوہر میسج کے میں ذکر کردہ الفاظ سے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم نہیں دیتا  تو  شوہر کے حق میں تو پھر بھی ایک رجعی طلاق  ہی ہوگی لیکن بیوی کے  حق میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوں  گی  جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوجائے گا اور تجدید نکاح کے بغیر بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ  رہنا جائز نہ ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں میسج کے  یہ الفاظ کہ"کل صبح نکل جاؤ پنڈی کے لیے”کنایات  کی پہلی قسم  میں سے ہیں  جن سے طلاق واقع ہونے کے لیے  ہر حال میں شوہر کی نیت شرط ہے جبکہ مذکورہ صورت میں بقول شوہر اس کی طلاق کی  نیت نہیں تھی لیکن نیت چونکہ باطنی امر ہے جس پر بیوی مطلع نہیں ہوسکتی اس لیے شوہر کو طلاق کی نیت نہ ہونے پر بیوی کے سامنے قسم بھی دینی ہوگی لہٰذا اگر شوہر طلاق کی نیت نہ ہونے پر  بیوی کے سامنے قسم  بھی دیدے تو اس جملے سے تو طلاق واقع نہ ہوگی لیکن میسج میں مذکور دوسرا جملہ  یعنی "دانش آزاد کررہا ہے” طلاق کے لیے صریح ہے جس سے شوہر کی نیت کے بغیر بھی ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی اور عدت کے اندر رجوع کرنا کافی ہوگا  لیکن اگر شوہر نے پہلا جملہ  یعنی "صبح نکل جاؤ پنڈی کے لیے” طلاق کی نیت سے کہا تھا  یا طلاق کی نیت نہ ہونے  پر بیوی کے سامنے قسم نہیں دیتا  تو پہلے جملے سے بھی ایک بائنہ طلاق واقع ہوگی اور اس سے اگلے جملے سے دوسری بائنہ طلاق شمار ہوگی۔

‌شامی(3/298)میں ہے:

والكنايات ‌ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي)…….. (يحتمل ردا

(قوله يحتمل ردا) أي ويصلح جوابا أيضا ولا يصلح سبا ولا شتما

‌شامی(3/299)میں ہے:

فإن ‌سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال ” رهاكردم ” أي ‌سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت

شامی (5/27) میں ہے:

وكناية: مثل أنت عندى كما كنت وأنت امرأتى فلا يصير مراجعا الا بالنية، أفاده في البحر والنهر

‌شامی(3/301)میں ہے:

والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى

(قوله بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقا لله تعالى ط عن البحر

بدائع الصنائع(3/187) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو ‌نقصان ‌عدد ‌الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد

بدائع الصنائع(3/180) میں ہے:

أما ‌الطلاق ‌الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

فقہ اسلامی (ص:122) میں ہے:

ایک جملہ ہے کہ تجھے آزاد کیا اور دوسرا جملہ ہے کہ تو آزاد ہے۔ پہلا جملہ طلاق میں صریح ہے اور اس سے طلاق رجعی پڑتی ہے جبکہ دوسرا جملہ طلاق میں کنایہ ہے اور اس سے طلاق بائن پڑتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved