• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کی خواہش کا اظہار کرنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

السلام علیکم محترم جناب علماءکرام میرا اور میری بیوی کا جھگڑا ہوا  میں نے غصے میں کہا’’ اب دل کرتا ہے کہ تم سے جدائی ہو جائے چاہے تمہاری موت سے ہو یا ویسے ہو  ‘‘لیکن میں نے لفظ  طلاق نہیں بولا  ہاں دل میں ہو سکتا ہے کہ بیزاری اتنی ہو کہ جان چھوٹ جائے لیکن میں بہت محبت کرتا ہوں ،لڑائی بھی ہماری  دین کی کسی بات پر ہوئی تھی،میری بیوی الحمدللہ دیندار  ہے لیکن شیطان اس کی برائیاں مجھے چڑھ چڑھ کر دکھارہا تھا حالانکہ وہ نمازی بھی ہے اور روزہ قرآن اور تہجد بھی سب گھر والوں سے زیادہ پڑھتی ہے ۔حضرت میں اسے طلاق کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن مجھےاپنےدل کی کیفیت یاد نہیں،پہلے جو میں نے لکھا ہے ہو سکتا ہے کہ بیزاری میں لکھا ہو  ،دل میں جو کہا کہ ’’جان چھوٹ جائے ‘‘  یہ خیال غالب ہے یا گمان غالب ہے  اس لئے ڈر لگ رہا ہے۔ کیا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع ہوئی ہے؟

نوٹ:بیوی کاموقف معلوم کرنے کے لیے شوہر سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا نمبر بند ملتا ہے لہذا شوہر کے بیان کے مطابق مشروط جواب لکھا جارہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً آپ نے زبان سے یہی الفاظ کہے تھے کہ ”اب دل کرتاہے کہ تم سے جدائی ہوجائے….الخ“  تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ آپ کے ان الفاظ میں خواہش کا اظہار ہےاورخواہش کا اظہار کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔اسی طرح   زبان سے طلاق کے الفاظ ادا کیے بغیرمحض دل میں طلاق کا خیال وغیرہ لانے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

فتاوی ہندیہ(210/2)میں ہے:

ولوقال هويت طلاقك أوأحببت طلاقك أورضيت طلاقك أوأردت طلاقك لاتطلق وإن نوي هكذافي الخلاصة.

ردالمحتار(431/4)میں ہے:

وبه ظهر ان من تشاجر مع زوجته فاعطاها ثلاثةاحجار ینوی الطلاق ولم یذکر لفظا ً صریحاً ولاکنایة لایقع علیه.

فتاوی محمودیہ (548/12)میں ہے:

     سوال :زید نے اپنی بیوی ہندہ کو  ایک مجلس میں یہ کہا کہ’’ میں تمہیں رکھنا نہیں چاہتا ہوں ‘‘اس بات کے پانچ گواہ ہیں ‘مگر پنچایت میں زید اس بات کاانکار کرتا ہے۔دریافت طلب امریہ ہے کہ مذکورہ بالا الفاظ سے طلاق  واقع ہوگی یا نہیں؟

الجواب:’’اگر زید نے بیوی سے کہا ہو اور اس کو اقرار بھی ہو کہ اس نے اس طرح کہا ہے کہ’’ میں تمہیں نہیں رکھنا چاہتا ہوں  یا میں نہیں رکھوں گا ‘‘تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوئی  کیونکہ یہ خواہش کا اظہار ہے یا وعدہ ہے اس سے طلاق نہیں ہوتی۔‘‘

فتاوی محمودیہ (264/12)میں ہے  :

     سوال :زید نے اپنے ہی آپ کو اپنے دل میں بغیر حرکت کرنے زبان کے کہا کہ تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ‘اس کے جواب میں زید ہی نے  کہا کہ ’’ہاں ‘‘اور اس ہاں کو سن بھی لیا ‘پس صرف ہاں کے سن لینے سے بکر کہتا ہے کہ طلاق ہوگئی اگرچہ طلاق کو زبان سے نہ کہا ہو اور خالد کہتا ہے کہ طلاق نہیں ہوگی جب تک کہ زبان سے نہ کہے ۔ان دونوں میں کون حق پر ہے؟

الجواب: ’’خالد کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے ‘کیونکہ وقوع طلاق کے لئے صرف نیت کافی نہیں بلکہ زبان سے کہنا شرط ہے  اور صورت مسئولہ میں لفظ طلاق کا تلفظ نہیں کیا ‘لہذا طلاق واقع نہ ہوگی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved