• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کی نیت کے بغیر سادہ کاغذ پر الفاظِ طلاق لکھنے کا  حکم

استفتاء

میں نے اپنی بیوی کو 5 یا 6 سال پہلے ایک طلاق دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ :

’’I am giving you 1 Talaq, I am sending you the papers‘‘

(میں تمہیں ایک طلاق دے رہا ہوں، میں تمہیں پیپرز بھی بھیج رہا ہوں)

حالانکہ کوئی پیپر نہیں بنوایا تھا اس کے بعد ہم اکٹھے رہتے رہے ۔ چند ہفتے پہلے میرے اور میری بیوی کے درمیان بحث ومباحثہ ہوا اور کسی فضول وجہ سے میں نے ایک کاغذ پر یہ لکھا کہ:

“I Ismail Omar Hereby giving Divorec to Sadaf Javed 3 Times”

(میں اسماعیل عمر، صدف جاوید کو تین ڈائیوورک دے رہا ہوں)

اس تحریر کی تصویر بھی آپ کو بھیج دی ہے،(جو ساتھ لف ہے) یہ لکھتے وقت میری نیت طلاق دینے کی بالکل بھی نہیں تھی، یہ تحریر لکھنے کے بعد میں نے وہ کاغذ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، میری بیوی کمرے میں تھی اس نے وہ کاغذ دیکھ لیا لیکن اس وقت ہم دونوں پریشان نہیں تھے، صبح میری بیوی نے کہا کہ شاید اس سے طلاق نہ ہوچکی ہو تو میں اس وقت ڈر گیا۔ اللہ جانتا ہے کہ میری نیت طلاق دینے کی بالکل بھی نہیں تھی کیونکہ وہ تین بچوں کے ساتھ اکیلی ہے، اور ساؤتھ افریقہ میں اس کی فیملی بھی نہیں۔

اس تحریر میں دو اہم باتیں ہیں، ایک یہ کہ یہاں لفظ ’’Divorec‘‘ (ڈائیوورک) لکھا ہے۔ (حالانکہ اصل لفظ ’’Divorce‘‘ ڈائیوورس ہے) دوسری بات یہ کہ میری بیوی کا شناختی کارڈ کے مطابق نام ’’صدف عمر‘‘ ہے جبکہ میں نے ’’صدف جاوید‘‘ لکھا تھا۔ میری بیوی کے والد کا نام جاوید ہے۔ میں نے طلاق کے الفاظ لکھ دیئے کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ اس سے بھی طلاق ہوسکتی ہے۔ میرے والد نے پاکستان کے مفتیان کرام سے بھی پوچھا تھا، انہوں نے جو جواب دیا تھا وہ بھی میں آپ کو ارسال کردوں گا لیکن ہم مطمئن نہیں، ہم فتویٰ چاہتے ہیں کیونکہ ہم حنفی ہیں۔ میں چار ماہ میں چل رہا ہوں، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سیدھی راہ کی طرف رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے جو سادہ کاغذ پر طلاق کی تحریر لکھی ہے وہ تحریر کی غیر مرسوم صورت ہے جس میں طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کی نیت ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے طلاق دینے کی نیت نہیں کی تھی اس لیے اس تحریر سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔البتہ اس سے پہلے چونکہ شوہر نے ایک طلاق دی تھی جس کے بعد اکٹھے رہنے کی وجہ سے رجوع بھی ہوگیا تھا اس لیے آئندہ شوہر کو دو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہے۔

تبیین الحقائق (6/218) میں ہے:ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان وهو أن يكتب في صدره من فلان إلى فلان على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب فيكون هذا كالنطق فلزم حجة ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه..رد المحتار (442/4) میں ہے:وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لابدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved