• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کی صورت میں لڑکے اور اس کے گھر والوں کو دئیے گئے تحائف کا حکم

استفتاء

طلاق کی صورت میں لڑکے کے سسرال والوں کی طرف سے لڑکے کو اور اس کے ماں ،باپ بہنوں اور بھابھی  کو دی جانے والی رقم یا سونے کی کوئی چیز جو شادی سے پہلے اور بعد میں دی گئی ،  شرعاً کس کی ملکیت ہو گی ،  طلاق ہونے کی صورت میں اگر ان اشیاء کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے تو شرعاً کیسا ہے؟

نوٹ:  ان  اشیاء اور رقم وغیرہ لینے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا نہ شادی سے پہلے اور نہ شادی کے بعد۔

لڑکی کی والدہ کا موقف:

دیتے وقت واپس لینے کی نیت نہ تھی۔ البتہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ بچی کو خوش رکھیں ۔جب بچی کو ہی خوش نہ رکھا اور فوراً طلاق دے کر فارغ کر دیا تو اب میرا مطالبہ ہے کہ وہ چیزیں واپس کریں ۔ نیز ہمارے خاندان میں پہلے ایسی نوبت ہی نہیں آئی بہنوں ،بھائیوں ،اور بھتیجوں کی شادیاں ہوئیں کسی کو بھی طلاق نہ ہوئی اس لیے  ایسی چیزوں میں عرف و رواج بھی نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سسرال والوں کی طرف سے لڑکے کو اور اس کے ماں ،باپ ،بہنوں اور بھابھی کو دی جانے والی رقم یا سونے کی اشیاء واپس لینے کی گنجائش ہے البتہ دی جانے والی اشیاء میں اگر کپڑے وغیرہ ہوں جو استعمال سے ختم ہوگئے ہوں ان کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں ۔

توجیہ:اس طرح کا ہدیہ عرفاً اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو فوراً یا  بہت تھوڑے عرصے میں طلاق نہ دے لہذا جب تھوڑے عرصے میں طلاق دیدی تو عرفی شرط کے فوت ہونے کی وجہ سے ہدیہ کی واپسی کی گنجائش ہے۔

شامی  (3/ 153) میں ہے:

‌خطب ‌بنت ‌رجل وبعث إليها أشياء ولم يزوجها أبوها فما بعث للمهر يسترد عينه قائما فقط وإن تغير بالاستعمال أو قيمته هالكا لأنه معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد وكذا يسترد ما بعث هدية وهو قائم دون الهالك والمستهلك لأنه في معنى الهبة.

شامی  (3/ 154) میں ہے:

وأفتى به حيث سئل فيمن خطب امرأة وأنفق عليها وعلمت أنه ينفق ليتزوجها فتزوجت غيره، فأجاب بأنه يرجع واستشهد له ‌بكلام ‌قاضي ‌خان المذكور وغيره وقال إنه ظاهر الوجه فلا ينبغي أن يعدل عنه.

شامی  (3/ 155) میں ہے:

وعلى هذا فما يقع في ‌قرى ‌دمشق من أن الرجل يخطب المرأة ويصير يكسوها ويهدي إليها في الأعياد ويعطيها دراهم للنفقة والمهر إلى أن يكمل لها المهر فيعقد عليها ليلة الزفاف، فإذا أبت أن تتزوجه ينبغي أن يرجع عليها بغير الهدية الهالكة.

فتاویٰ محمودیہ (12/123) میں ہے:

سوال: ***کی لڑکی کی منگنی حامد کے لڑکے سے طے ہوئی، منگنی کے بعد لڑکے نے کہا کہ لڑکی کو میں خود دیکھوں گا، اس پر زید نے اپنی لڑکی کی شادی دوسری جگہ کردی جو رقم اور سامان زید نے اس منگنی کے سلسلے میں حامد کو دیا تھا وہ واپس ملنا چاہیے یا نہیں؟

جواب: جو سامان اور روپیہ شادی کی امید پر دیا گیا تھا پھر شادی نہیں ہوئی اس کو  واپس لینا درست ہے جبکہ وہ موجود ہو، استعمال سے ختم نہ ہوگیا ہو۔

خطب ‌بنت ‌رجل وبعث إليها أشياء ولم يزوجها أبوها فما بعث للمهر يسترد عينه قائما فقط وإن تغير بالاستعمال أو قيمته هالكا لأنه معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد وكذا يسترد ما بعث هدية وهو قائم دون الهالك والمستهلك لأنه في معنى الهبة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved