• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

1)طلاق کو بیوی کے حلف پر معلق کرنا(2)الفاظ صریح کےبعد کنائی الفاظ میں طلاق دینا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا اپنی بیوی سے بعض وجوہات کی بناء پر جھگڑا ہوا جس پر میں نے اس کے حقیقی چچا اور بھائی کو بلوا کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ اگر یہ قسم اٹھا کر اپنی براءت ظاہر کردے تو مجھے اس کو گھر میں رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ قسم نہ اٹھانے کی صورت میں میری طرف سے فارغ ہے ۔اس وقت میری منکوحہ نے ناپاکی کا عذر بیان کرکے وقتی طور پر قسم اٹھانے سے معذرت کرلی لیکن اسی مکالمہ میں جھگڑا طول پکڑتا گیا اور عورت نے کہا کہ اگر میں واقعی مجرم ہوں تو مجھے طلاق دےکرفارغ کردو جبکہ میں نے اس سے کہا فی الحال اپنے میکے چلی جاؤ اور بعد میں قسم دے دینا لیکن بغیر طلاق میکے جانے پر وہ تیار نہ ہوئی تو میں نے اس کو دو دفعہ طلاق دے دی جس پر اس کے بھائی نے میرے پاؤں پکڑ کر تیسری طلاق دینے سے مجھے روک لیا کہ آپ ہمیں ایک موقعہ دیں ہم اس کی اصلاح کرکے آپ کےپاس واپس بھیج دیں گے۔دوطلاق ہوجانے پرعورت نے بہت زیادہ گالم گلوچ اور شور وشغب شروع کردیا تو میں نے اس سے کہا میں تو تجھے فارغ کرچکا ہوں لہذااپنے والدین کے گھر جاؤاور یہاں پر واویلانہ مچاؤ۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ واقعہ مذکورہ بالا کے بعد میں اس عورت سے رجوع کرسکتا ہوں یا نہیں اوربحالی کی کیا صورت بن سکتی ہے؟میں حلفا اقرار کرتا ہوں کہ میرا بیان حقیقت پر مبنی ہے جس میں کوئی امر مخفی نہ ہے۔

نوٹ:دودفعہ جو طلاق دی اس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘

بیان حلفی

1۔میں مسمات سعدیہ اس بات کا حلفیہ اقرار کرتی ہوں کہ میرے خاوند نے استفتاء میں جو طلاق کا واقعہ ذکر کیا ہے حقیقت پر مبنی ہے۔

2۔میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر مانتے ہوئے قرآن پاک کے ذریعے اس بات کا حلف اٹھاتی ہوں کہ میں اپنے پر لگائے گئے الزام میں بری ہوں۔میں الزام علیہ مرد کےساتھ مباشرت فاحشہ کی مرتکب نہیں ہوئی ہوں اور اگر میں اپنے حلف دینے میں جھوٹی ہوں تو میرے اوپر اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اپنا غضب نازل کرے۔

مزید وضاحت:

قسم کا مطالبہ کرتے وقت میرے ذہن میں فی الفور قسم اٹھوانے کا مطالبہ نہیں تھا،بلکہ جب اٹھالے۔میں نے کہاتھا قسم اٹھالے تو ٹھیک ہے ۔مطالبہ قسم کا واقعہ 2مئی کا ہے جبکہ قسم اٹھانے کا عمل 21جون کو ہوا۔(خاوند)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دوبائنہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ،پہلا نکاح ختم ہوگیا ہے ،دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرنا ضروری ہےجس میں حق مہر بھی ہو گا اور گواہ بھی ہوں گے ۔

یاد رہے کہ نکاح کرلینے کے بعد آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ

مذکورہ صورت میں خاوند نے دوصریح طلاقیں بغیر کسی شرط کے دیدی ہیں ،جبکہ ایک طلاق(کنائی)کو قسم نہ اٹھانے پر معلق کیا تھا۔بیوی نے چونکہ قسم کھالی ہے ،اس لیے وہ طلاق موثر نہ ہوئی بلکہ کالعدم ہو گئی۔دوطلاقیں صریح تھیں اس لیے ان سےدو رجعی طلاق ہوئیں،لیکن خاوند نے بعد کے جھگڑے میں یہ کہا ہے کہ’’میں تو تجھے فارغ کرچکاہوں‘‘اس سے وہ دورجعی طلاقیں بائنہ ہوگئیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved