• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق کو نکاح پر معلق کرنے جواب میں ٹھیک ہے کہنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تکرار ہو رہا تھا اسباق کا، ایک طالب علم نے دوسرے طالب علم کو یہ کہا کہ تم یہ کہو کہ ’’جب میں نکاح کروں  میری بیوی کو طلاق ہے ‘‘جس طالب علم کو یہ کہا جا رہا تھا وہ تکرار میں مصروف تھا اور ان کے اس قول سے جان چھڑانے کے لیے اس نے ہاں کر دی یعنی کہا ٹھیک ہے۔ اس میں اس طالب علم کا طلاق کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا اور نہ نیت ،محض  ان سے اپنی جان چھڑانے کے لیے یہ کہا کہ ٹھیک ہے ،تاکہ وہ اپنا تکرار جاری رکھے ،اس طالب علم کا ابھی نکاح نہیں ہوا صرف منگنی ہوئی ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب پہلے طالب علم نے یہ کہاکہ’’ تم کہو کہ جب میں نکاح کروں میری بیوی کو طلاق ہے‘‘ اس کے جواب میں دوسرے طالب علم کے’’ٹھیک ہے‘‘ کہنے سےیمین منعقد ہوگئی ہے، لہذا اب وہ جس لڑکی سے بھی شادی کرے گا تو اس لڑکی کو فورا ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، تاہم دوبارہ نکاح کرنے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔

الدر المختار (3/ 605)

عرض عليه اليمين فقال نعم كان حالفا في الصحيح كذا في الصيرفية وغيرها

 قال المصنف هذا هو المشهور لكن في فوائد شيخنا عن التاتر خانية أنه بنعم لا يصير حالفا هو الصحيح ثم فرع أنما يقع من التعاليق في المحاكم أن الشاهد يقول للزوج تعليقا فيقول نعم لا يصح على الصحيح

حاشية ابن عابدين (5/ 606)

قوله ( لا يصح على الصحيح ) أي المنقول عن التاترخانية وقد علمت أنه خلاف ما فيها فالصحيح أنه يصح كما مر عن الصيرفية ولم يثبت اختلاف التصحيح

شرح الحموی:4/238

قوله:لایصح علی الصحیح کما قدمناه وقوله نعم یکفی فی التعلیق بعد قراء ة

 الشاهد التعلیق علیه لان الشاهد یستخبر من یرید ان یعلق علیه فاذا قال نعم کان جوابا واعلاما فکانه اعاده فی جوابه فیلزمه موجب التعلیق ویشهد علیه به فلو قال لم ارد الجواب کان خلاف الظاهر فلایصدق قضاء۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved