• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق نوٹس بھیجنےسے طلاق کا حکم

استفتاء

بیان حلفی

***** کا رہائشی ہوں۔ ****بیان کرتا ہوں کہ میں نے وکیل کو صرف اللہ کو حاضر ناظر جان  کر اپنی  بیوی کو محض اصلاح برائے احوال طلاق نوٹس بھیجنے کو کہا۔

****بیان کرتا ہے میرا دل ،میری نیت طلاق  دینے کی نہیں تھی۔

****بیان کرتا ہے ان تینوں نوٹس پر میرے دستخط اور انگوٹھا نہیں ہیں۔

****بیان کرتا ہے کہ وکیل کے بار بار کہنے کے باوجود بندہ نے نہ دستخط کیے ہیں اور نہ انگوٹھا  لگایا ہے۔

****بیان کرتا ہے کہ لفظ نوٹس بھیجنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ میری بیوی کا بدتمیزانہ رویہ اور غیر اخلاقی گفتگو اور ہر دوسرے دن ناراض ہوکر میکے چلے جانا یا وہاں جا کر ناراض ہوکر بیٹھ جانا اس سے وہ باز آجائے۔اب آیا اس صورت میں طلاق ہوگئی یا نہیں ؟

تنقیح:ان طلاق ناموں کو نہ میں نے پڑھا تھا اور نہ مجھے پڑھ کر سنائے گئے ،مجھے انگریزی نہیں آتی جبکہ طلاق نامے انگریزی زبان میں ہیں ،طلاقناموں کے چند دن بعدہم ایک جگہ ملے تو  ہماری بات چیت ہوئی اور اسی دوران  ہماری صلح ہوگئی تھی۔

بیوی کا بیان

’’میں *** آپ کے آگے درخواست کرتی ہوں کہ قرآن وحدیث کی روشی میں میرا فیصلہ کریں میرے شوہر نے میرے منہ پر مجھے طلاق نہیں دی اور نہ ہی کبھی مجھ پر ہاتھ اٹهايا، چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ہمارے درمیان اختلافات  پیدا ہوئے اور میں اپنی امی سے ملنے  کے لیے آئی اور واپس نہیں گئی  اور ا س نے غصے میں نوٹس بھیجے اور میں نے قبول نہیں کیے اور نہ ہی کسی نوٹس پر میرے دستخط ہیں  اور  وہ صلح کی بات کررہے ہیں  اور کہتے ہیں میں نے دل سے فیصلہ نہیں دیا اور نہ ہی میں نے قبول کیا  میں بھی چاہتی ہوں کہ صلح ہوجائے۔ جب شوہر کی طرف سے طلاقنامے موصول ہوئے تو اس کےچند دن بعد  4 جون کو میری شوہر سے ایک جگہ اچانک ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا  تو شوہر نے کہا کہ یہ میں نے دل سے نہیں بھجوائے بلکہ صرف ڈرانے کے لیےبھجوائے تھے تو ا س ملاقات میں  ہم صلح کے لیے تیار ہوگئے پھر ہم وہاں سے ایک جگہ گئے اور ہمارا تعلق بھی ہوا  پھر میں گھر آگئی۔ پہلے طلاقنامے کے بعد سے اس وقت تک مجھے دو ماہواریا ں آئی تھیں‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  تیسرے طلاقنامے پر نہ شوہر کے دستخط ہیں اور نہ نشان انگوٹھا ہے لہٰذا یہ طلاقنامہ تو غیر مؤثر ہے باقی پہلے اور دوسرے طلاقنامے پر اگرچہ شوہر کے دستخط تو نہیں ہیں تاہم ان پر نشان انگوٹھا ہے اور نشان انگوٹھا دستخط کے ہی قائم مقام ہوتا ہے۔ اب یہ نشان انگوٹھا شوہر کا ہے یا  کسی اور کا ہے اس کی تحقیق ہم نہیں کرسکتے، لہٰذا یہ نشان انگوٹھا  اگر واقعتاً شوہر کا نہیں تو ان دو طلاقناموں سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر یہ نشان انگوٹھا واقعتاً شوہر کا ہے تو ان دو طلاقناموں کی رُو سے دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں  اور چونکہ شوہر کا  کہنا  ہے کہ  اس نے نہ تو طلاقناموں کو پڑھا تھا اور نہ اس کو پڑھ کر سنائے گئے تھے اس لیے ان سے کم از کم دو رجعی طلاقیں واقع ہوئیں  اور پھر پہلے طلاقنامہ کی تاریخ کے بعد تیسرے حیض سے پہلے میاں بیوی کی صلح ہوگئی تھی اور رجوع ہو گیا تھا اس لیے نکاح قائم  رہا۔ ؎

نوٹ:اگر مذکورہ نشان انگوٹھا شوہر کا ہے تو شوہر کے پاس آئندہ  ایک طلاق کا حق باقی رہ گیا ہے ورنہ تینوں کا حق باقی ہے۔

در مختار مع ردمحتار (4/442)میں ہے:

ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخةً وابعث بها إليها”.

الدر المختار مع رد المحتار(5/26) میں ہے:

‌‌باب الرجعة…….. (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال،………… (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهةبكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس

بدائع الصنائع (3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا.

کفایت المفتی (6/261)میں  ہے:

میری ہمشیرہ عرصہ سے میرے مکان پر رہتی تھی اسی ایام میں میرے بہنوئی بشارت علی نے ہمیشہ جھگڑا فساد کیا اور نوبت تفریق تک پہنچی ،اسٹامپ کاغذخود بشارت علی لایااور لکھا ، جس وقت  کاغذ لکھا جارہا تھا اس وقت بیس پچیس آدمی وہاں موجود تھے کاٖغذ لکھتے لکھتے گود کی لڑکی کا ذکر آیا جس پر بشارت علی نے جھگڑا کیا اور اسٹامپ کاغذ ادھورا رہ گیا وہ نامکمل کاغذ لیکر اپنے گھر چلا گیا کچھ روز بعد دو چار آدمی اور بشارت کے والد اور احباب میرے گھر جمع ہوئے اور مصالحت ہوئی ہم نے ہمشیرہ کو بشارت کے والد کے ساتھ مع گود کی بچی کے بھیج دیاایک ماہ بعد پھر جھگڑا فساد مار پیٹ کی گئی اب ہمشیرہ مع بچی کے میرے گھر آگئی ہےاور وہ اسٹامپ کاغذ بھی میرے پاس ہےجس  پر نہ بشارت کے دستخظ ہیں اور نہ کسی گواہ کے۔

جواب: اگر بشارت نے زبانی طلاق دے دی ہو تو طلاق ہوئی زبانی طلاق کی شہادت پیش  کرنا عورت کے ذمہ ہےاور زبانی طلاق نہیں دی تھی صرف اسٹامپ لکھاتھاتویہ اسٹامپ جس پر دستخط نہیں ہیں بیکار ہے اس  سے طلاق کا حکم نہیں دیاجاسکتا

امداد الفتاوی (2/398)میں ہے:

اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہےاور دستخط کرنا اصطلاحاً اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved