• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق رجعی وبائن کی صورت

استفتاء

شوہر کا بیان:

میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے 19 اپریل  2020 کو ایک طلاق دی تھی۔ میں نے یہ کہا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اس کے علاوہ میں نے کبھی طلاق نہیں دی اور میں نے جھگڑے میں کبھی ’’جا میں نے فارغ کیا‘‘ کا لفظ نہیں کہا۔ اور میں نے طلاق کے بعد تقریبا 15 دن کے اندر رجوع کرلیا تھا۔

بیوی کا بیان:

میری شادی کو تقریباً 17 سال ہوچکے ہیں اور تین بچے ہیں۔ شروع سے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے تھے اور پہلے سال سے ہی میرے شوہر اکثر مجھے لڑائی میں بھی اور ویسے بھی یہ کہا کرتے تھے کہ ’’میں نے تجھے فارغ کیا‘‘۔ ایک دفعہ آج سے 5 یا 6 سال پہلے گھر میں کوئی ناچاکی ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘۔ پھر تقریبا 2 ماہ پہلے انہوں نے پھر طلاق کا لفظ بولا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی تھی جس سے رجوع کرنے کی وجہ سے نکاح باقی ہے۔ لیکن بیوی کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہےجس سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے لہذا بیوی کے لئے (گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ) دوبارہ نکاح کیے بغیر شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

توجیہ:

شوہر کے بیان کے مطابق جب اس نے یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی۔ پھر اس کے بعد 15 دن کے اندر رجوع کرلیا تو رجوع ہوگیا جس سے نکاح باقی رہا۔

جبکہ بیوی کے بیان کے مطابق شوہر نے پہلے سال سے ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ’’میں نے تجھے فارغ کیا‘‘ ۔ یہ جملہ کنایات طلاق کی تیسری قسم سے ہے جس سے لڑائی جھگڑے کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ جملے سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی۔ اور البائن لا یلحق البائن کے تحت بعد میں شوہر نے جو بار بار ’’میں نے تجھے فارغ کیا‘‘ کے الفاظ کہے ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اور جب شوہر نے صریح طلاق کے الفاظ بولے تھے اس وقت تک عدت گزر چکی تھی اور نکاح ختم ہوچکا تھا اس لیے وہ الفاظ بے اثر رہے۔

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ فارغ کا لفظ اپنے مفہوم وموارد میں خلیہ وبریہ کے مقارب ہے، کہا جاتا ہے یہ مکان یا برتن فارغ ہے، یہاں خالی کے معنی میں استعمال ہوا اور کہا جاتا ہے کہ فلاں مولوی صاحب مدرسہ سے فارغ کر دیے گئے ہیں یا ملازمت سے فارغ ہیں یہاں علیحدگی اور جدائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو بائن اور بریہ کا ترجمہ ہے یا اس کے مقارب ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ فارغ کے لفظ سے خلیہ و امثالہا کی طرح حالتِ غضب میں طلاق نہ ہو لیکن اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ ہمارے عرف میں فارغ کا لفظ سبّ کے لیے مستعمل نہیں، صرف جواب کو محتمل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ حالت غضب میں طلاق ہو جائے ولولم ینو، لیکن اگر یہ لفظ رد کا احتمال بھی رکھے تو پھر ہر حالت میں نیت کے بغیر طلاق نہ ہوگی۔ یہ بندہ کے اوہام ہیں حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ بینوا توجروا

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

فتاویٰ شامی(4/419) میں ہے:

(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث.

فتاویٰ شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved