• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاق ثلاثہ کے طلاقنامے پر دستخط کرنے کا حکم

استفتاء

میرا نام**ہے اور میری بیوی کا نام ** ہے،ہم دونوں**سے ہیں۔میں نے اپنی بیوی کو *** کو طلاق ثلاثہٍ دے دی تھیں،ہم اب رجوع کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر رجوع کر سکتے ہیں تو اسکا کیا طریقہ ہو گا؟ لکھ کر بھیجی گئی ہے طلاق ، بول کر نہیں دی۔ غصے میں دی گئی ہے طلاق ،طلاق اپنی ماں کے کہنے پر دی گئی ہے ، ماں سے جھگڑا کرتی تھی ۔میرے ساتھ صحیح تھی،طلاقنامہ ساتھ لف ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: طلاقنامے پر دستخط کرتے وقت آپ کو معلوم تھا کہ اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں یا آپ نے دستخط کرنے سے پہلے طلاقنامہ پڑھا تھا؟

جواب وضاحت: معلوم تھا ،ہم نے رجوع بھی کر لیا تھا، ہم نے بستری کر لی تھی ایک ہفتہ پہلے، کیا اب ہم میاں بیوی ہیں؟

طلاقنامے کی عبارت:

"*****کا ہوں اور من مظہر کانکاح ہمراہ**** لاہور سے شریعت محمدﷺ روبروگواہان **** کو پڑھایا گیا تھا ۔یہ کہ** کی بیوی آئے دن **کے ساتھ بلاوجہ لڑائی جھگڑا کرتی ہے اور بار بار طلاق کا مطالبہ کرچکی ہے………….. اب سوائے طلاق کے کوئی چارہ نہ ہے یہ کہ** بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلاجبر واکراہ ***کونکاح کےبندھن سے آزاد کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ، طلاق،طلاق،طلاق دیتا ہوں اور****کو اپنی نفس زوجیت کے لیے حرام قرار دیتا ہوں اور یہ کہ عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد مسماۃ مذکوریہ میری طرف سے آزاد ہے وہ جس سے چاہے عقد ثانی کرے مجھے کسی قسم کااعتراض نہ ہے………………لہٰذا من مقر نے طلاق نامہ کو اچھی طرح پڑھ کر سن کر اور طبیعت کو درست تسلیم کرکے روبرو گواہان اپنے دستخط ونشان انگوٹھا ثبت کردیے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آسکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے آپ کی بیوی ا ٓپ پر حرام ہو گئی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں چونکہ دستخط کرتے وقت شوہر کو معلوم تھا کہ طلاقنامے میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں لہذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں  اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

درمختار مع ردالمحتار(4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved