• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاقنامے میں بیوی کی جگہ کسی اور کا نام لکھا ہو تو کیا طلاق ہوگی؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ  میرے شوہر  نے مجھے کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ پہلی بار بولا تو میں نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تو دوسری بار بھی یہی الفاظ میں نے سنے، مگر تیسری بار یہ الفاظ اس نے کہے ہیں یا نہیں میں نے نہیں سنے، میں امی کے گھر جانے لگی تو   خالہ (ساس) نے مجھے روک لیا کہ نہ جاؤ، اس نے غصّے میں بولا ہے تو میں رک گئی، اس نے  مجھ سے رشتہ بنا کے رکھا، اس لڑائی کے بعد دو ماہ تک میں گھر ہی رہی اور ہم میاں بیوی کی طرح رہتے رہے، اس کے بعد بنا کسی لڑائی کے   مجھے خالہ (ساس) نے امی سے ملنے بھیج دیا، ایک دو مرتبہ شوہر سے کال پر رابطہ ہوا،   پھر مجھ سے رابطہ نہیں ہوا اسی طرح پانچ، چھ سال گزر گئے اور پھر مجھے میرا دوسرا کزن طلاقنامہ دے گیا جو ساتھ لف ہے، اب مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟

شوہر کا بیان:

’’میں نے صرف ایک طلاق دی تھی، اس کے بعد رجوع ہو گیا تھا، پھر میری بیوی ماں کے گھر چلی گئی اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا، پھر پانچ چھ سال بعد میں نے طلاقنامہ بھیجا جس میں بیوی کا نام غلط لکھا ہوا تھا لیکن مجھےاس بات کا علم نہیں تھا میں نے پڑھے بغیر دستخط کر دیے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ نام غلط لکھا ہوا تھا، البتہ بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے ہی دستخط کیے تھے‘‘۔

طلاقنامے کی عبارت:

’’منکہ مسمی  خرم شہزاد ولد محمد صدیق ساکن ونی گجراں، ڈاکخانہ خاص، تحصیل ٹیکسلا، ضلع راولپنڈی کا ہوں، بقائمی ہوش و حواس خمسہ  روبرو گواہان حاشیہ حسب ذیل طلاق نامہ تحریر کرتا ہوں،

 یہ کہ من مظہر کی شادی ہمراہ مسماۃ صوبیہ بی بی دختر محمد اعظم ساکن رنی کسی،  تھانہ ترنول، ضلع و تحصیل اسلام آباد بمطابق شریعت محمدی 22 مئی 2010 راولپنڈی میں سرانجام پائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من مظہر نے مسماۃ  مذکوریہ کو    سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کی کہ وہ لڑائی جھگڑا  چھوڑ کر گھر میں سکون و آرام سے رہے آباد رہے، لیکن بے سود، اور اب من مظہر سے مطالبہ طلاق شروع کر دیا،  اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم دونوں کا آپس میں بطور میاں بیوی اندر حدود اللہ رہنا مشکل و ناممکن ہو گیا ہے، لہذا میں(نے)  بقائمی ہوش اپنی آزاد  مرضی و منشا سے مسماۃ پروین اختر کی مرضی و مطالبہ  سے مسماۃ مذکوریہ کو طلاق ثلاثہ (طلاق طلاق طلاق) دے کر اپنی زوجیت سے ہمیشہ کے لئے الگ کر دیا ہے اور اپنے نفس پر حرام کر دیا ہے، بعد از گزرنے مدت عدت مسماۃ مذکوریہ جہاں چاہے عقد ثانی کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں  طلاقیں  واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا اس کے لیے بیوی کی حیثیت سے شوہر کے پاس رہنا جائز نہیں۔

توجیہ:  طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ خود شوہر کو  طلاق دیتے ہوئے سن لے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، مذکورہ صورت میں بھی چونکہ بیوی کا دعوی یہ ہے کہ اس نے شوہر سے  ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ کے الفاظ دو مرتبہ سنے ہیں لہذا     بیوی کے حق میں  دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئیں، پھر چونکہ دونوں میاں بیوی کی طرح رہتے رہے لہذا عدت کے اندر رجوع ہو گیا اور    نکاح باقی رہا۔ نیز طلاق کے وقوع کے لیے بیوی کی طرف طلاق کی نسبت ہونا ضروری ہے، مذکورہ صورت میں چھ سال بعد شوہر نے جو طلاقنامہ بھیجا تھا اس میں  طلاقنامے کے الفاظ ’’ مسماۃ مذکوریہ کو طلاق ثلاثہ (طلاق طلاق طلاق) دے کر اپنی زوجیت سے ہمیشہ کے لئے الگ کر دیا ہے‘‘ سے بیوی کے حق میں تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی کیونکہ طلاقنامے کے الفاظ ’’مسماۃ مذکوریہ‘‘ سے وہ عورت مراد ہوتی  ہے جس کا ذکر طلاقنامے کے شروع میں کیا جاتا ہے، اور طلاقنامے سے ایک طلاق اس لیے واقع ہوئی کیونکہ شوہر کو طلاقنامے کے مضمون کا علم نہیں تھا۔

فتاوی شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

فتاوی شامی (442/4) میں ہے:

قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.

درمختار مع ردالمحتار (4/509) میں ہے:

كرر لفظ الطلاق وقع الكل.

(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

امدادالفتاوی جدید مطول (183/5) میں ہے:

سوال:   ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھدو اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھدیا آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کر دئیے تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب: اگر مضمون کی اطلاع پر دستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved