• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تعلیق کے الفاظ میں حرف شرط کے ذکر کی حیثیت

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ مذکورہ کے بارے میں کہ *** نامی شخص نے اپنی بیوی کو کچھ ایسے الفاظ کہے جن کی وجہ سے طلاق بائن پڑ گئی، مفتیان حضرات نے فرمایا کہ اگر فریقین راضی ہوں تو ایک چانس ہے، تجدید نکاح کے ساتھ کام چل سکتا ہے، تجدید نکاح ہو گیا۔

تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد *** کی بیوی (***) اپنے سگے ماموں  جو کہ *** کے سگے چچا ہیں، اور یہ بات سب گھر والوں کے علم میں ہے کہ یہ ماموں اپنی بھانجی اور بھتیجی کے ساتھ اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ماموں گھر آئے تھکے ہوئے *** کو کہا مجھے دباؤ، وہ بھتیجی  کے ساتھ کمرے میں قرآن پڑھ رہی تھی، بڑے ماموں پاس ہی لیٹے ہوئے تھے، نانی بھی پاس تھیں، ماموں الٹے لیٹے ہوئے تھے، اور *** اوپر سے ٹانگوں سے ماموں کو دبا رہی تھی کہ ماموں نے کروٹ بدلی، باہر سے *** آیا، اس نے سمجھا کہ شاید میرے چچا سیدھے سوئے ہوئے تھے اور *** اوپر سے دبا رہی تھی، بعد میں *** اور *** کی آپس میں بات ہوئی *** نے کہا کہ چچا سیدھے سوئے ہوئے تھے اور تم اوپر سے دبا رہی تھی (حالانکہ *** نے بعد میں یہ اقرار کیا کہ مجھ سے بھول ہو گئی، چچا الٹے ہی سوئے ہوئے تھے)، *** نے کہا کہ تم سوں اٹھاؤ، *** نے کہا کہ ’’میں تین طلاقوں کی سوں اٹھاتا ہوں کہ چچا سیدھے سوئے ہوئے تھے، اور تم دبا رہی تھی‘‘۔ *** نے بھی کہا کہ ’’میں تین طلاقوں کی سوں اٹھاتی ہوں، اور مجھے یہ تین بچے بھی نصیب نہ ہوں ماموں الٹے لیٹے ہوئے تھے۔‘‘ پاس والے بھی گواہی دے رہے ہیں کہ *** کو مغالطہ لگا ہے۔ اور *** نے خود بھی اقرار کیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، ماموں الٹے ہی تھے۔

اب آپ ان خط کشیدہ الفاظ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں حالانکہ میں (محمد گل) نے آپ کو بتایا تھا میری اسی طرح تفصیلاً فون پر جامعہ اشرفیہ والوں (مفتی صاحب) کے ساتھ بات ہوئی اور کراچی کے ایک مفتی صاحب سے بھی بات ہوئی ہے۔ انہوں نے جو بات کہی وہ میں نے آپ کو بتا دی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح ہو سکتی ہے۔  وجہ اس کی یہ ہے کہ شوہر کے اس کلام میں اگر صراحتاً حرف شرط نہیں لیکن عرفاً یہ کلام تعلیق کو متضمن ہے۔

چنانچہ فتاویٰ شامی (4/ 451) میں ہے:

تنبيه: عبارة المحقق ابن الهمام في الفتح هكذا: وقد تعورف في عرفنا في الحلف، الطلاق يلزمني لا أفعل كذا، يريد إن فعلته لزم الطلاق ووقع، فيجب أن يجري عليهم، لأنه صار بمنزلة قوله: إن فعلت فأنت طالق، وكذا تعارف أهل الأرياف الحلف بقوله عليّ الطلاق لا أفعل اه. وهذا صريح في أنه تعليق في المعنى على فعل المحلوف عليه بغلبة العرف، وإن لم يكن فيه أداة تعليق صريحاً.

فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ (4/ 595) ہے:

وقديكون الكلام متضمناً بدون تصريح بأداته … ومنه أيضاً عليّ الطلاق لا أفعل كذا.

………………………………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved