• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تعلیق طلاق کی ایک صورت

استفتاء

میرے شوہر نے مجھ سے کہا”اگر تم میری گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تو تمہیں طلاق ہوجائے گی اورمیں نے وہ گاڑی ڈرائیو کرلی تو کیا طلاق ہوگئی؟اس سے قبل بھی میرےشوہر نےاس شرط کے ساتھ طلاق کی دھمکی دی تھی کہ "اگر تم نے والدین کے گھر یہ باتیں کیں(کچھ گھریلو باتوں کے متعلق کہا تھا)تو تمہیں طلاق ہوگی لیکن اس وقت میری طرف سے شرط پوری نہیں کی گئی تھی۔

میراغالب گمان تو یہ ہے کہ شوہر نے مجھے کہا تھا کہ اگر تم میری گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تو میری طرف سے تمھیں طلاق  ہےلیکن میرے شوہر کہہ رہے ہیں کہ میں نے فیصلے کا لفظ کہاتھایعنی میری طرف سے پہلا فیصلہ ہے اور میں نے گاڑی ڈرائیو کرلی ۔

شوہر کا بیان:شوہر سے رابطہ ہوا تو اس نے یہ بیان دیا ” میں نے فیصلے کا لفظ کہا تھا کہ اگر تم میری گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تو میری طرف سے پہلا فیصلہ  ہےاور غالباً اس وقت طلاق کی نیت ہوگی  اور اس سے قبل بھی شرط کے ساتھ طلاق کی دھمکی دی تھی لیکن اس وقت شرط نہیں پائی گئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہےجس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہےلہذا اکھٹا رہنے کے لیے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

توجیہ:طلاق کوجب کسی شرط پر معلق کیا جائے تو شرط پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے مذکورہ صورت میں شوہر نے طلاق کواپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے پر   معلق کیا تھااور بیوی نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کرگاڑی ڈرائیو کرلی لہذاشرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوگئی اورشوہر کے یہ الفاظ کہ” اگر تم میری گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تو میری طرف سے  پہلا فیصلہ ہے”چونکہ کنایات طلاق  میں سے ہیں جن سے طلاق کی نیت کی صورت میں میاں بیوی دونوں کے حق میں بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہےاور شوہر کے غالب گمان کے مطابق اس کی طلاق کی نیت تھی لہذا ان الفاظ  سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی۔

نوٹ:دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو آئندہ صرف دوطلاقوں کا اختیار ہوگا۔

عالمگیری 1/420)میں ہے:

‌وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

ہدایہ(2/200)میں ہے:

‌وإذا ‌كان ‌الطلاق ‌بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائهالأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في إطلاقه.

درمختار(5/42)میں ہے:

(‌وينكح) ‌مبانته ‌بما ‌دون ‌الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع.

در مختارمع رد المحتار(4/521)میں ہے:

(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

وفي الشامية: ‌والحاصل ‌أن ‌الأول ‌يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

فتاویٰ محمودیہ (12/573) میں ہے:

سوال:  ***نے اپنی بیوی کو بوجہ شک اور لوگوں کے کہنے سے بہتان لگایا اور کہا کہ و ہیں جا کر رہو، میں تم کو رکھنا نہیں چاہتا اور نکال دیا ۔عورت دوسرے مکان پر شام تک بیٹھی رہی، مگر پھر مسلمانوں نے ملا دیا، عورت پھر شوہر کے پاس رہنے لگی ۔ چند روز کے بعد پھر جھگڑا ہوا اور شوہر نے کہا کہ میر اول تم سے رجوع نہیں اور میری جائیداد اور بچوں پر تمہارا کوئی حق نہیں، تم رہو یا نہ رہو”۔ تب عورت نے کہا کہ مجھے پر بھی تمہارا کوئی حق نہیں تم میرا فیصلہ کر دو اس وقت مرد کہتا ہے کہ میری طرف سے فیصلہ ہے، اب تمہاری غرض ہو یا نہ ہو۔ اس وقت عورت نکل کر بکر کے یہاں چلی گئی اور عرصہ چھ سال سے اس کے یہاں رہتی ہے، ***شوہرصریح الفاظ کے ساتھ طلاق نہیں دیتا ہے۔ کیا مذکورہ لفظوں سے طلاق ہوگئی یا نہیں؟

الجواب :اگر ***نے مذکورہ الفاظ سے طلاق کی نیت کی تھی تو اس کی بیوی پر طلاق بائن پڑ گئی اور ***کے نکاح سے بالکل نکل گئی ، عدت کے گزرنے کے بعد جس سے چاہے نکاح کرلے:كتابته ما لم يوضع له أي الطلاق واحتمله وغيره، فالكنايات لا تطلق بها قضاة إلا بنية أو دلالة الحال.

فتاوی عثمانی(2/371)میں ہے:

سوال:۔ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ، پہلی بیوی کو دو دفعہ اور دوسری بیوی کو ایک دفعہ طلاق دےکر رجوع کرچکا تھا ، پھر ایک موقع پر اس نے دونوں بیویوں کے متعلق کہا کہ ’’ میری دونوں بیویاں کل تک ضرور میرے پاس آجائیں اگر کل تک نہ آئیں تو میری طرف سے فیصلہ ہے ‘‘ مگر بیویاں اس کے پاس نہ گئیں  اس واقعے کی تفصیل آپ کے دارالافتاء لکھ کر بھیجی تھی  تو جناب کی طرف سے ۶؍۳؍۱۳۹۳ھ کو جواب موصول ہوا تھا کہ پہلی بیوی کو تینوں طلاقیں ہوچکی ہیں ، اور دوسری بیوی کو طلاق بائن ہوئی ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ، باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہےمگر دوسری بیوی آمادہ نہ ہوئی نتیجتاً دونوں بیویاں اپنی اپنی اولاد کے پاس رہنے لگیں  اب وہ شخص یہ کہتا ہے کہ میں نےاپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی  اور وہ الفاظ غصے کی حالت میں کہے تھے ، حالانکہ یہ بالکل واضح تھا کہ جب اس نے یہ الفاظ  کہے تھے تو اس کی مراد طلاق تھی اگر وہ شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے تھے تو اس کے اس دعویٰ کی کیا حقیقت ہے ؟

جواب:پہلے جواب میں یہ لکھ دیا گیا تھا کہ :’’ اگر یہ بات غصے کی حالت میں کہی تھی تو نیت کے بغیر بھی طلاق ہوگئی ‘‘۔ اور موجودہ سوال میں شوہر خود اقرار کررہا ہے کہ یہ بات اس نے غصے کی حالت میں کہی تھی ، لہٰذا طلاق واقع ہوگئی  اس کے علاوہ سوال میں (جس کا نمبر ۳۴۸/۲۴ ب ہے) یہ تصریح ہے کہ اس نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’ یہ نہ سمجھنا کہ میں خالی دھمکی دے رہا ہوں ، بلکہ پرسوں وکیل کے ذریعہ تحریری طلاق بھی ارسال کردوں گا ‘‘ یہ صراحۃً مذاکرۂ طلاق ہے ، اور اور مذاکرۂ طلا ق میں بھی نیت کا اعتبار نہیں ہوتا ، لہٰذا طلاق بائن واقع ہوچکی ہے اور شوہر کے قول کا اعتبار نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved